Imran Khan and Fazal ur Rahman by Talat Hussain

Qazi Hussain Ahmad: A man of character

Mushtari hoshyar bash

The Don of PTI: Ziaullah Afridi is crossing the limits by Rashid Manzoor

Ziaullah Afridi, the sitting MPA from PK-1 and the adviser to the CM KPK on Minerals and Natural Resources apart from serving as the Focal Person Mega Projects of KPK government has started behaving like a Don in the PTI circles on the basis of sycophancy and wealth. Few days back, he was reported by the party workers to the Dy General Secretary of PTI, Mr. Saifullah Niazi about the misuse of powers and government resources. His brothers were also reported to the high ups of PTI about the illegal use of Afridi's ministry's cars and offices. This has enraged the Don and physically assaulted the ex NA-1 by elections candidate Mr.Gul Badshah. Gul was disgraced in the presence of so many PTI workers and activists. 

This didn't stop here as the illiterate Advisor to the CM KPK for minerals and focal person for mega projects in KPK, has threatened Zafar Khattak, ex- Peshawar district President of PTI. Even his brother tried to attempt on his life in the presence of so many PTI workers near Hayat Abad toll plaza, where the party is going through a Sit-in (Dharna) against NATO supply. So many PTI workers are witnessed, prominent of them was khalid Masood Khan,  to the threats given by Zia's brother and an attempt on Mr. Khattak's life.

"Genuine worker is disappointed and an attempt on my life has endangered my security " says Zafar Khattak
PTI's political organization is very weak across the country and when you have powers without established political organization and accountability like KPK, Dons like Ziaullah Afridi will emerge as the key leaders. His only qualification is sycophancy powered by a lot of wealth. The genuine workers are suffering while the sycophants are ruling and enjoying the perks and benefits alongside their families and friends. He has got a very effective shoe polish brush ready to do it for any high ups of PTI and ultimately a qualified and biggest Sycophant in the PTI provincial chapter.

How can a matriculate like Zia Afridi be the focal person for mega projects in KPK?
How can he be an adviser without having any prior experience?
How did he earn a party ticket in one year time of his joining?
Without political experience, how can he has got such a key position like adviser and focal person?
Is PTI barren to be relied upon such illiterate characters?
To all these question, there is one answer, Pervez Khattak led PTI in KPK is strongly under the influence of wealth and sycophancy. Political experience, education, contribution has nothing to do in front of sycophancy and wealth and that is the prime qualifications for going up in the PTI. So change of faces is really there but the system is going on the old route. Wealth and wickedness with the addition of the spices of Sycophancy leads one to become Ziaullah Afridi.

Contributed by: Rashid Manzoor


Adhura Column

2014: Javed Ch in Paris

2014 Javed Chaudhry

"لاہور میں ہرنوں کی ڈاریں قلانچیں بھرتی تھیں"اقتباس: مستنصر حسين تارڑ


میرے ابا جی 1930ء کے لگ بھگ رزق روزگار کی تلاش میں اپنے آبائی گاؤں سے لاہور منتقل ہوئے۔ وہ اکثر ہمیں بتایا کرتے کہ ایک مرتبہ وہ کاروبار کے سلسلے میں لاہور سے کراچی بذریعہ ریل گاڑی جا رہے تھے۔۔۔ لاہور ریلوے سٹیشن کے بعد ایک ویرانے میں لاہور کینٹ کا مختصر سا سٹیشن تھا، جونہی ریل گاڑی کینٹ سٹیشن سے نکلی تو ہرنوں کی ایک ڈار قلانچیں بھرتی ہوئی گاڑی کے ساتھ ساتھ ہو لی۔۔۔ یہ علاقہ گورو مانگٹ کا تھا جس کے آس پاس ان دنوں گلبرگ پھیلا ہوا ہے۔ ہرنوں کی یہ ڈار اپنے تئیں اس عجیب سے سانپ نما لہراتے ہوئے لوہے کے جانور کے برابر میں اس سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑتی رہی اور پھر یکدم برابر کے ایک جنگل میں روپوش ہو گئی۔ میں اکثر تصور کرتا ہوں کہ ان دنوں میں گلبرگ کے جس علاقے میں مقیم ہوں وہاں کبھی غزالوں کا بسیرا تھا۔۔۔ فخر الدین تم تو واقف ہو کہ دیوانے پہ گزری اور۔۔۔ اے غزالِ شب، تری پیاس کیسے بجھاؤں میں۔

1950ء کی قربت میں جب ہم چیمبر لین روڈ کے ایک خوش نما گیلریوں والے مکان سے مال روڈ پر واقع ان زمان کے ’’پوش‘‘ علاقے لکشمی مینشن میں منتقل ہوئے تو میری والدہ نے رو رو کر آنکھیں سُجا لیں کہ کہاں آ گئے ہم چمن سے نکل کے۔۔۔ پوری ہال روڈ مکمل طو رپر ایک ویران گزرگاہ تھی، کوئی ایک دکان بھی نہ تھی۔ البتہ لکشمی مینشن میں ہال روڈ پر کھلتا ایک مے خانہ تھا جس کے اندر جانے کا تو کبھی اتفاق نہ ہوا کہ ہم ابھی ایک خاکی نیکر میں ملبوس لڑکے تھے لیکن ہم کبھی کبھار اندر جھانک لیتے۔۔۔ بیشتر مے خوار عیسائی یا پارسی ہوتے لیکن اپنے مومنین کی بھی کچھ کمی نہ ہوتی۔۔۔ اور میں نے کبھی اس شراب خانے سے نکلتے ہوئے کسی شخص کو ڈولتے اور جھومتے ہوئے نہ دیکھا جیسا کہ ہماری اکثر فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ میری امی جب کبھی چیمبر لین روڈ کے اس گھر میں مقیم میرے ماموں جان سے ملنے جاتیں تو شام ہونے سے پہلے لوٹ آتیں کہ تب مسجد مائی لاڈو کے بعد ویرانی ہی ویرانی تھی اور کوئی بھی تانگے والا شام کے بعد ہال روڈ کی جانب جانے سے گریز کرتا۔۔۔ اور وہ جو مال روڈ تھی مختصر سی جس کے دونوں جانب پھولوں کی کیاریاں ااور گھاس کے قطعے تھے وہاں پچھلے پہر کارپوریشن کی جانب سے چھڑکاؤ کیا جاتا۔ شاید اسی لیے اسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا تھا۔ پورے دن میں شاید درجن بھر کاریں گزرتیں۔ تانگے اور ریڑھے بھی کم کم ہوتے اور گرمیوں کی دوپہروں میں مال روڈ اتنی ویران ہوتی کہ ہم بچہ لوگ وہاں بیچ سڑک کے بلکہ ریگل چوک میں کیڑی کاڑا وغیرہ کھیلتے۔ البتہ چودہ اگست کے دن یہ لاہور شہر کی سب سے پر رونق اور پر مسرت شاہراہ ہو جاتی۔ یوم آزادی کے موقع پر ایک نہایت پر جلال شان شوکت والی ملٹری پریڈ ہوتی۔۔۔ دور پار کے دوست اور رشتے دار ہمارے مہمان ہوتے کیونکہ ہمارے فلیٹ کی چھت پر سے ریگل چوک میں سے مارچ پاسٹ کرتی فوج، بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک ایک شاندار نظارہ ہوا کرتے اور مال روڈ کے تمام کوٹھوں اور چھتوں پر ناظرین کا ایک ہجوم ہوتا اور ہم ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے بٹھا لیتے۔ ہر مکان پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہوتا۔ خصوصی طور پر جب گڑ گڑاتے ہوئے ٹینک گزرتے تو زلزلہ سا آ جاتا اور ہم مزید پر جوش ہو کر نعرے لگانے لگتے۔۔۔ اور یاد رہے کہ ان نعرے لگانے والوں میں عیسائی اور پارسی ہم وطن بھی ہوتے۔ انہیں ابھی تک معلوم نہ تھا کہ وہ کبھی جلائے جائیں گے یا باہر کے ملکوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ریگل چوک کے پار ’’سٹینڈرڈ ریستورنت‘‘ تھا جس کی چھت پر ایک فربہ خاتون اینجلا نام کی رقص کیا کرتی تھی۔۔۔ اور ہم اپنے والدین سے چوری چھپے چھت پر جا کر مفت میں اس کا ناچ دیکھا کرتے تھے۔ ریگل سنیما کی گلی میں ایک انگریز خاتون نے ایک ڈانسنگ سکول کھول رکھا تھا۔۔۔ جہاں ان دنوں مسجد شہداء ہے وہاں تانگوں کا اڈا ہوا کرتا تھا اور آپ وہاں سے مزنگ اور اچھرہ کے دور افتادہ قصبوں تک جا سکتے تھے لیکن صرف دن کے وقت۔۔۔ بلکہ مجھے یاد آیا کہ ایک روز ابا جی نے میری والدہ سے کہا کہ۔۔۔ نواب بیگم لاہور سے کچھ دور گلبرگ نام کی ایک رہائشی کالونی کا منصوبہ بن رہا ہے اور اس کے ایک ڈائریکٹر نے پیشکش کی ہے کہ وہاں ایک شاہراہ کے کنارے پندرہ کنال کے پلاٹ الاٹ کیے جا رہے ہیں اور کل قیمت بیس ہزار سے بھی کم ہے تو چوہدری صاحب اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو ایک پلاٹ الاٹ کردوں شرط صرف یہ ہے کہ آپ دو برس کے اندر اندر اس پر گھر تعمیر کر لیں۔ میری والدہ نے پوچھا کہ یہ جگہ کہاں ہے تو ابا جی نے کہا کہ لاہور کے پار کوئی علاقہ ہے تو والدہ نے انہیں خوب جلی کٹی سنائیں اور وہ اکثر انہیں سناتی ہی رہتی تھیں کہ ہم تو چیمبر لین روڈ چھوڑ کر اس ویرانے میں آن بسے ہیں اور اب یہاں سے نہر کے پار لے جانا چاہتے ہو۔۔۔ اس سے بہتر نہیں کہ اپنے گاؤں لوٹ چلیں۔۔۔ جب ہم نے گلبرگ میں بالآخر گھر بنایا تو والدہ صاحبہ اکثر تذکرہ کرتی تھیں کہ میں نے تمہارے ابا جی کی بات نہ مانی ورنہ آج گلبرگ کے مین بلیووارڈ پر ہماری کوٹھی ہوتی۔

قدیم لاہور کی سب سے ہنگامہ خیز یاد اُن دنوں کی ہے جب فارسٹر کے ناول پر مبنی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ اس کے گلی کوچوں میں ہوتی اور میں اس کا تفصیلی تذکرہ اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں کر چکا ہوں۔۔۔ جب ایوا گارڈنر مال روڈ کے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کیا کرتی تھی اور اس کے بدن کی خوشبو لاہور کی ہواؤں میں دھو میں مچاتی تھی اور سٹیورٹ گرینجر ہماری گلیوں میں گھوما کرتا تھا اور وہاں لکشمی مینشن میں سعادت حسن منٹو تو تھے ہی، میرے بچپن کے ’’دوست‘‘۔۔۔ جن کے ہاتھ میری اولین کوٹھا عشق کی محبوبہ کا میرے نام جو خط تھا آ گیا تھا اور انہوں نے مجھے انصاری ہوٹل میں ایک پیسٹری کھلا کر مجھے ’’بلیک میل‘‘ کرنے کی کوشش کی تھی۔

میں سارک ادیبوں کی دلی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کر رہا تھا جب انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں میری ملاقات پران نِول سے ہو گئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں ایک لاہوری کلب ہے جس میں صرف لاہوری بابے شرکت کر سکتے ہیں، بدقسمتی سے میں اس کلب کے اجلاس میں شریک نہ ہو سکا کہ مجھے اگلے روز لاہور واپس آنا تھا۔ پران نِول نے قدیم لاہور پر ایک کتاب بھی تحریر کی اور اب اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لا کر نسبت روڈ پر گھومتے ہیں کہ بیٹا یہ ہے ہمارا شہر۔۔۔ بے شمار لوگوں نے لاہور کی توصیف میں بہت کچھ لکھا، اے حمید۔۔۔ سراج نظامی، یونس ادیب، شورش کاشمیری اور ان دنوں مجید شیخ۔۔۔ یہاں تک کہ ’’پیراڈائز لاسٹ‘‘ میں بھی آگرہ کے علاوہ لاہور کے تذکرے ہیں۔

لاہور کا بیان ممکن ہی نہیں۔۔۔ ڈکنز کا لنڈن۔۔۔ ذولا اور ہیوگو کا پیرس، جیمز جوائس کا ڈبلن، البرتو مورادیا کا روم اور دوستو سکی کا سینٹ پیٹرز اپنی جگہ لیکن یقین جانیے کہ یہ صرف لاہور ہے، جو لاہور ہے۔

(اقتباس: مستنصر حسين تارڑ کے کالم "ہزار داستان "لاہور میں ہرنوں کی ڈاریں قلانچیں بھرتی تھیں" سے)