ظفر سید
پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ راولپنڈی کے ایک گھر میں دو میجر جنرل، دو بریگیڈیئر، ایک ایئر کموڈور، کئی کرنل اور دوسرے فوجی موجود تھے۔ گرما گرم بحث، دلائل اور جوابی دلائل سگریٹوں کے دھویں اور چائے کی پیالیوں سے اٹھتی ہوئی بھاپ میں مدغم ہو رہے تھے۔
فوجیوں کی اس محفل میں ایک مدھم آواز اور دھیمے لہجے میں سہج سہج بولنے والے صاحب بھی موجود تھے جن کا زیادہ تر وقت تو ایک سگریٹ سے دوسرا سگریٹ جلانے میں گزرا، لیکن جب بھی وہ بھی بولتے، کمرے پر خاموشی چھا جاتی۔
یہ بات ہے 23 فروری 1951 کی، اور یہ آٹھ گھنٹوں پر محیط نشست میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر منعقد ہوئی تھی اور اس میں حکومتِ وقت کا تختہ الٹنے کے منصوبے پر غور کیا گیا تھا۔ یہ سہج سہج بولنے والے شریکِ محفل فیض احمد فیض تھے۔ یہ وہ واقعہ ہے جو بعد میں پنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور و معروف ہوا۔
باغیوں کے اس اجلاس میں فیض کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم نظریاتی و عملی کارکنان سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا بھی شامل تھے۔
سوال یہ ہے کہ فیض احمد فیض اس چکر میں کیسے پڑ گئے؟
فیض احمد فیض کے نواسے علی مدیح ہاشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی فوج روایتی طور دائیں بازو کے خیالات کی پروردہ در رہی ہے۔ لیکن اس سرد شام سجنے والی نشست میں غالباً ملک کی تاریخ میں پہلی بار فوجی بغاوت بپا کرنے کے لیے بائیں بازو کی آئیڈیالوجی سے استفادہ کرنی کوشش کی گئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملکی قیادت کو گرفتار کر کے اقتدار پر قبضہ جما لیا جائے، جس کے بعد ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے جائیں جن میں کمیونسٹ پارٹی کو بھی حصہ لینے کی اجازت ہو۔
یاد رہے کہ اس دور میں پاکستان امریکہ سے پینگیں بڑھا رہا تھا۔ جہاں امریکہ میں میکارتھی ازم کے تحت بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کا ناطقہ بند کیا گیا، وہیں پاکستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے ’سرخوں‘ کی ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کو سختی سے کچل دیا گیا۔
فیض کمیونسٹ پارٹی سے جذباتی طور پر وابستہ تھے، اس بغاوت سے ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچتا۔ دوسری جانب چونکہ شاعرِ طرح دار ہونے کے ناتے سارا ملک ان کا پرستار تھا، ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کے ایک سرکردہ اخبار پاکستان ٹائمز کے مدیر بھی تھے، اس لیے ان کے ذمے بغاوت کے بعد کی فضا میں عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام لگایا جانا تھا۔
اس نشست میں جتنے لوگ موجود تھے، وہ سب رزقِ خاک ہو چکے ہیں، صرف ظفراللہ پوشنی زندہ بچے ہیں جو اس وقت فوج میں کیپٹن تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو 1951 کی اس محفل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میجر جنرل اکبر حکومت کی پالیسیوں سے سخت ناخوش تھے۔ وہ 1948 کی جنگِ کشمیر میں پاکستانی فوج کے کمانڈر تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ انھیں جنگ کے حتمی نتیجے کے بغیر ہی واپس بلا لیا گیا تھا۔
ظفراللہ پوشنی نے انکشاف کیا کہ اس رات پنڈی سازش کیس کے ارکان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فیض اور سجاد ظہیر بھی اس غیر جمہوری عمل کے حق میں نہیں تھے، انھوں نے اس کے خلاف دلائل دیے۔ آٹھ گھنٹے کی تند و تیز بحث و تمحیص کے بعد بالآخر جنرل اکبر خان کے پیش کردہ منصوبے کو ناقابلِ عمل سمجھ کر رد کر دیا گیا۔
’زندانی‘ اشعار
- متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہےکہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نےزباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہےہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
- چمن میں غارتِ گل چیں سے جانے کیا گزریقفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
- درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہےتو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
- صبا نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دستک دیسحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
اسی رات ایک مخبر نے چپکے سے پولیس کو خبر کر دی۔ نو مارچ 1951 کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اس سازش کو طشت از بام کر دیا، جس کے بعد اس محفل کے دیگر شرکت کنندگان کے ساتھ فیض کو بھی گرفتار کر جیل میں ڈال دیا گیا۔
اس کے بعد فیض کی زندگی کے اگلے چار سال ملک کی مختلف جیلوں میں گزرے۔ یہ دور ان کے لیے ذاتی طور پر ضرور تکلیف دہ رہا ہو گا، لیکن اس سے ان کی تخلیق صلاحیتوں کو مہمیز لگی۔ ان کی کئی پرکیف نظمیں اور غزلیں اسی دور کی دین ہیں۔ فیض جیل ہی میں تھے کہ ان کا مجموعۂ کلام ’دستِ صبا‘ منظرِ عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ’زنداں نامہ‘ کی اکثر و بیشتر شاعری پسِ زنداں ہی تصنیف ہوئی۔
جیل میں فیض کے ساتھی قیدی میجر محمد اسحٰق ’زنداں نامہ‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’شعر کا عالم طاری ہوتا تو فیض صاحب خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ البتہ اٹھتے بیٹھتے گنگنا چکنے کے بعد ادھر ادھر دیکھنے لگتے۔ ہم بھانپ لیتے تھے کہ سامعین کی ضرورت ہے۔۔۔ اگر نظم یا غزل تیار ہوتی تھی تو ایک آدھ شعر سنا دیا کرتے تھے۔‘
پوشنی صاحب کے بیان کردہ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیض کی جذباتی وابستگی کتنی شدید کیوں نہ ہو، وہ کسی صورت ایک غیر جمہوری اور غیر سیاسی عمل میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ یہ بات ان ادیبوں اور ’دانشوروں‘ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو بعد میں جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار میں آنے والی فوجی حکومتوں کے کاسہ لیس بنے رہے۔
(فیض کی 29ویں برسی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق جرنیل کے خلاف آئین توڑنے کے مقدمے کے آغاز کے موقعے پر لکھا گیا۔)
No comments:
Post a Comment