ایم کیو ایم کا صولت مرزا پاکستان کے ان چند دہشتگردوں میں سے ایک ھے جس پر باقاعدہ دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلا، ثبوت پیش ہوئے اور مئی 1999 میں موت کی سزا سنادی گئی۔ صولت مرزا پر جو بہت سے قتل کے کیس تھے ان میں سے ایک کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایم ڈی کا قتل بھی شامل تھا۔
مشرف آیا، ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئی اور صولت مرزا کی پھانسی پر عملدرامد روک دیا گیا۔ پھر زرداری آیا جس نے آرڈیننس کے زریعے پھانسی کی سزا ہی ختم کردی۔
پچھلے مہینے سانحہ پشاور ہوا اور پھانسیوں کا موسم شروع ہوگیا۔ پیلے مرحلے میں جنہیں پھانسی ملی وہ مشرف پر قاتلانہ حملے کے ملزم تھے۔
آج وفاقی حکومت نے آرڈر جاری کرکے صولت مرزا کی پھانسی پر ایک دفعہ پھر عملدرامد روک دیا۔
اگر قتل ایک جرم ھے تو پھر پھانسی صرف مخصوص لوگوں کو ہی کیوں؟ معاشرے کی ہر برائی بشمول دہشتگردی کے پیچھے کہیں نہ کہیں معاشرتی ناانصافی کا عمل دخل ضرور ہوتا ھے۔ یہ سمجھنے کیلئے آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں کہ آج اگر صرف تحریک طالبان کو پھانسیاں دی گئیں اور صولت مرزا جیسوں کو معاف کردیا گیا تو اس سے دہشتگردی مزید پھلے پھولے گی۔
پھر چند سال بعد آپ ایک دفعہ پھر سر پکڑ کر بیٹھے ہونگے اور سوچ رھے ہونگے کہ یہ دہشتگردی کیسے رکے گی۔ اور اگر آپ کی پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو ایک دفعہ باباکوڈا کی یہ پوسٹ پڑھ لیں۔
ناانصافی کو ناانصافی سے ختم کرنے کی کوشش بھی دہشتگردی کی ہی ایک شکل ھے
No comments:
Post a Comment