ہم اب دھرنوں کی حقیقت دیکھتے ہیں‘ میں اپنے آپ سے آغاز کرتا ہوں‘ ریالٹی کیا ہے؟ مجھ سے 10 مئی 2013ءکو ”ایکسپریس نیوز“ کی الیکشن ٹرانسمیشن میں ایک گستاخی ہو گئی‘ میں نے کہہ دیا ” لاہور میاں برادران کا تھا لیکن یہ شہر اب صرف میاں برادران کا نہیں رہا‘ عمران خان بھی اب اس شہر کے حصہ دار ہیں“ میری یہ گستاخی ن لیگ کی قیادت کو پسند نہیں آئی‘ میں نے 11 مئی کے الیکشن کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں کو مبارکباد کا ایس ایم ایس کیا لیکن یہ دونوں میرے ساتھ اس قدر ناراض تھے کہ انہوں نے میری مبارک باد تک قبول نہ کی‘ مجھے جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا‘ الیکشن کے بعد میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں کے ساتھ ایک ایک ادھوری ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات بھی خوش گوار نہیں تھی‘ میں 2013ءکے سیلاب کے دوران کوریج کےلئے جنوبی پنجاب میںگیا‘ وہاں وزیراعلیٰ پنجاب کا چھوٹا سا انٹرویو کیا‘ یہ انٹرویو رہے سہے تعلقات بھی کھا گیا‘ میری اس کے بعد وزیراعلیٰ سے اگست 2014ءکے دوسرے ہفتے ملاقات ہوئی‘ رہ گئے میاں صاحب تو میں نے میاں نواز شریف سے 24 مارچ کو ”دی ہیگ“ میں زبردستی ملاقات کی‘ ہم پانچ صحافی اپنے اداروں کے خرچ پر جوہری تحفظ کی تیسری عالمی کانفرنس میں گئے تھے‘ وزیراعظم کا سٹاف ہماری ان سے ملاقات کےلئے تیار نہیں تھا‘ میں وزیراعظم کی سیکورٹی کا حصار توڑ کر ان تک پہنچ گیا‘ ان سے زبردستی ہاتھ ملایا اور ہم وزیراعظم کو لے کر میز پر بیٹھ گئے‘ میں نے وزیراعظم سے عرض کیا ” میاں صاحب آپ لیڈر ہیں‘ آپ کا دل بڑا ہونا چاہیے‘ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض نہ ہوا کریں“ وزیراعظم نے جواب دیا ” ہم مل کر بات کریں گے“ ملاقات کےلئے شام کا وقت طے ہوا‘ میں شام کے وقت ہوٹل میں وزیراعظم کے سویٹ تک پہنچ گیا‘ اندر پیغام بھجوایا گیا لیکن وزیراعظم نے وقت دینے کے باوجود ملاقات سے انکار کر دیا‘ میں دس منٹ کوریڈور میں کھڑا رہا‘ ملٹری سیکرٹری نے باہر تک آنا گوارہ نہ کیا‘ انہوں نے فون پر ہی معذرت کر لی‘ میں نے محی الدین وانی کو فون کیا‘ وانی صاحب نے جواب دیا” وزیراعظم تھک گئے ہیں‘ یہ آپ سے اسلام آباد میں ملیں گے“ مجھے اس وقت ذلت کا شدید احساس ہوا‘ میں ہوٹل سے واپس آ گیا اور میں نے وزیراعظم سے ملاقات کا باب بند کر دیا‘ آپ 11 مئی 2013ءسے 14 اگست 2014ءتک میرے کالم اور ٹی وی پروگرام نکال کر دیکھ لیں‘ میں آپ کو ہر جگہ حکومت کا خوفناک ناقد نظر آﺅں گا‘ حکومت نازک مزاج تھی (آج بھی ہے)‘میری تنقید اچھی نہیں لگتی تھی چنانچہ انہوں نے میرا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کر دیا‘ چودھری نثار علی خان نے وزیرداخلہ بننے کے بعد مجھے کوئی انٹرویو نہیں دیا‘ احسن اقبال 18 ماہ میں دو بار تشریف لائے‘ خواجہ سعد رفیق ایک بار‘ خواجہ آصف دو بار‘ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کبھی نہیں‘ ایاز صادق کبھی نہیں‘ مشاہد اللہ ایک بار اور پرویز رشید دو بار۔ یہ کیوں نہیں آتے تھے؟ اور انہوں نے میرا کیوں بائیکاٹ کر رکھا تھا؟ اس کی وجہ عمران خان تھے‘ یہ مجھے عمران خان کا سپورٹر سمجھتے تھے‘ عمران خان نے الیکشن سے قبل مال روڈ پر کنٹینر مارچ کیا تھا‘ میں واحد اینکر تھا جو اس کنٹینر پر عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا اور میں نے الیکشن سے قبل کنٹینر سے ان کا انٹرویو کیا تھااور میں نے انہیں 2013ءکے الیکشن کا فاتح قرار دیا تھا‘ میں مئی 2013ءسے لے کر28جولائی2014ءتک ان کے انٹرویوز کرتا رہا‘ میں لائیو پروگراموں میں پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کی بدتمیزی بھی برداشت کر جاتا تھا‘ جاوید ہاشمی نے میرے شو میں بیٹھ کر پروگرام کو بے ہودہ ترین شو کہا تھا‘ اسد عمر بھی ایک پروگرام میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے تھے لیکن میں قہقہہ لگا کر خاموش ہو گیا‘ میرا دعویٰ ہے آپ ان تمام صحافیوں کی ڈیڑھ سال کی کارکردگی بھی نکال لیجئے جنہیں آج حکومت کا چمچہ قرار دیا جا رہا ہے‘ یہ تمام لوگ بھی ڈیڑھ سال تک حکومت کے خوفناک ناقد تھے‘ یہ آج بھی ہےں اور یہ مستقبل میں بھی رہیں گے اور حکومت ان سے بھی خوش نہیں تھی‘ وزراءسلیم صافی کو بلے باز اور طلعت حسین کو طنزاً قائداعظم کہتے تھے‘ میاں صاحب طلعت حسین سے مجھ سے بھی زیادہ ناراض تھے‘ ریالٹی یہ ہے! حقیقتیں یہ ہیں!۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں” ہم دھرنے کے خلاف کیوں تھے؟“ ہم اپنے صحافتی تجربے کی بنا پر جانتے تھے عمران خان اور علامہ طاہر القادری ناکام ہو جائیں گے‘ یہ میاں نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکیں گے‘ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی اور انقلاب نہیں آئے گا‘ ہماری اس آبزرویشن کی چند موٹی موٹی وجوہات تھیں مثلاً عمران خان اور قادری صاحب غیر آئینی راستہ اختیار کر رہے ہیں‘ ہم جانتے تھے یہ راستہ پارلیمنٹ کےلئے قابل قبول ہو گا‘ سپریم کورٹ کےلئے‘ میڈیا کےلئے اور نہ ہی عوام کےلئے‘ ہمیں یقین تھا عوام عمران خان اور علامہ صاحب کے ساتھ نہیں نکلیں گے‘ 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں دو لاکھ لوگ بھی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے‘ ہم جانتے تھے اسٹیبلشمنٹ بھی لانگ مارچ کے ایشو پر تقسیم ہے‘ پورا ادارہ ان کی حمایت نہیں کر رہا اور جو لوگ حامی ہیں وہ بھی حکومت کو فارغ نہیں کرنا چاہتے‘ وہ میاں صاحب کو صرف رگڑا لگانا چاہتے ہیں اور اس رگڑا لگوائی کے کھیل میں عمران خان اور علامہ صاحب سیاسی لحاظ سے زخمی ہو جائیں گے‘ ہم یہ بھی جانتے تھے عمران خان اور علامہ صاحب صرف لانگ مارچ تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ دھرنا بھی دیں گے‘ ریڈزون میں بھی داخل ہوں گے اور یہ پارلیمنٹ ہاﺅس‘ ایوان صدر‘ پرائم منسٹر ہاﺅس اور پی ٹی وی پر قابض ہونے کی کوشش بھی کریں گے اور یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہو گی اور یہ غلطی انہیں اور ان کے سپورٹرز کو شرمندہ کروا دے گی‘ میں شروع دن سے اس خدشے کا اظہار کرتا آیا ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ میرے تمام خدشات درست ثابت ہوئے‘ ہم یہ بھی جانتے تھے فوج آگے نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیونکہ بدنامی کے وہ داغ ابھی تک پوری طرح نہیں دھلے جو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار نے فوج کے دامن پر لگائے تھے‘ فوج تین مختلف محاذوں پر بھی سرگرم تھی اور فوج کو سرے دست بین الاقوامی سپورٹ بھی نہیں مل سکتی چنانچہ ہم جانتے تھے فوج ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھے گی‘ہم یہ بھی جانتے تھے عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کی کشتیوں کے ساتھ دو دو بھاری پتھربندھے ہیں‘ عمران خان ڈیڑھ سال میں خیبرپختونخواہ میں کوئی کمال نہیں کر سکے‘ یہ وہ بھاری پتھر ہے جو ان کی کشتی کو آگے نہیں بڑھنے دے گا اور علامہ صاحب 2012ءمیں اسلام آباد سے ناکام واپس جا چکے ہیں‘ وہ ناکامی ان کا بھاری پتھر تھا‘ یہ دونوں پتھر سوال بن کر بار بار ان کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکیں گے تاہم یہ بات درست تھی وفاقی حکومت نے پندرہ ماہ میں غیر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیئے تھے‘ بیڈ پرفارمنس‘ بیڈ گورننس‘ سستی‘ وژن کی کمی اور وقت کا ضیاع حکومت پر بے شمار الزامات لگائے جا سکتے ہیں لیکن ہم جانتے تھے ان الزامات کے باوجود انقلاب ابھی قبل از وقت تھا‘ حکومت جس طرح غلطیاں کر رہی تھی‘ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہتا تو حکومت 2015ءتک غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو لیتی‘ یہ اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دفن ہو جاتی اور عمران خان اور علامہ صاحب کو کوئی تحریک نہ چلانی پڑتی‘ عمران خان نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا‘ یہ 2014ءمیں باہر آ گئے‘ہم جانتے تھے عمران خان نے غلط موسم کا انتخاب بھی کیا‘ ایسی تحریکوں کےلئے بہار کا موسم آئیڈیل ہوتا ہے‘ ہم یہ بھی جانتے تھے یہ دھرنا سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا‘ حکومت غیر مقبولیت کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی اور دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی تھی‘فوج نے بھی آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا تھا اور آئی ڈی پیز بھی سڑکوں پر تھے چنانچہ دھرنا سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا لہٰذا نتائج وہی نکلے جن کی ہم جیسے نالائقوں کو توقع تھی‘ آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں‘ میری کون سی بات غلط ثابت ہوئی‘ کیا میاں نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا‘ کیا اسمبلیاں ٹوٹ گئیں‘ کیا ملک میں انقلاب آ گیا‘ کیا پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی اور کیا کاخ امراءکے درو دیوارہل گئے‘ نہیں بالکل نہیں‘ ریالٹی تو یہ ہے عمران خان استعفیٰ لینے آئے تھے لیکن استعفے دے کر جا رہے ہیں‘ یہ میاں صاحب کی بادشاہت ختم کرنے آئے تھے لیکن انہوں نے میاں صاحب اور زرداری صاحب دونوں بادشاہوں کو اکٹھا کر دیا‘ حقیقت تو یہ ہے انقلاب سے قبل ملک میں اپوزیشن بھی تھی اور اپوزیشن لیڈر بھی لیکن انقلاب کی برکت سے اپوزیشن کا وجود ختم ہو گیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان اور محافظ بن گئی‘ میڈیا کے وہ لوگ جو نظام کی گندگی کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے جو حکمرانوں کی غلطیاں آشکار کرتے تھے وہ ملک کو بڑی برائی سے بچانے کےلئے چھوٹی برائی کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور ہو گئے اور میڈیا کو اب واپس آنے میں بڑی محنت کرنا پڑے گی۔ حقیقت تو یہ ہے علامہ طاہر القادری کا دھرنا ختم ہو چکا ہے اور عمران خان کو بالآخر یہ دھرنا ختم کرنا پڑے گا‘ ریالٹی تو یہ ہے ہمارے دونوں انقلابی گو نواز گو اور جلسوں کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ دونوں کام تو ان دھرنوں کے بغیر بھی ہو سکتے تھے‘ ریالٹی تو یہ ہے عمران خان نے جاوید ہاشمی جیسا شخص کھو دیا اور عامر ڈوگر پا لیا‘ ریالٹی تو یہ بھی ہے عمران خان اور علامہ صاحب کے کنٹینر پر روز وہ چہرے نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے خان صاحب کو نیا پاکستان بنانا پڑ رہا ہے اور ریالٹی تو یہ بھی ہے اگر فیصلہ سازوں کے دل میں عمران خان کےلئے کوئی سافٹ کارنر تھا تو وہ ختم ہو چکا ہے مگر ہمارے لوگ یہ حقیقتیں ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس ملک میں پرسپشن ہمیشہ ریالٹی سے بڑے ہوتے ہیں اور ہم زیادہ تر پرسپشن افواہوں‘ شک‘ جماعتوں‘ نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پر بناتے ہیں‘ ان کا حقیقتوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا
No comments:
Post a Comment