عبدالقادر حسن

معلوم نہیں اس رواں دواں زندگی میں کیا کچھ دیکھنا پڑے گا اور کتنی ہی انہونی باتوں سے واسطہ پڑے گا لیکن کئی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں جن کا کسی خواب و خیال میں بھی تصور نہ تھا۔کون سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک اکاؤنٹنٹ جو کسی حکومتی رشتہ داری کی وجہ سے وفاقی وزیر بن جائے گا ہم اخبار نویسوں کو بھری محفل میں بے عزت کرے گا اور ہم صحافی اس وزیر کی جھڑک سن کر اس بھری محفل میں اپنی بے عزتی پی جائیں گے اور بدمزا نہیں ہوں گے۔
ایسی بے عزتی جو صحافت کی تاریخ میں پہلی بار کی گئی ہے اور جس کا صحافتی زندگی میں کوئی تصور تک نہیں تھا۔ ہوا یہ کہ بجٹ کے بعد حسب روایت وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس بلائی کہ اس میں وہ بجٹ پر اعتراضات کا جواب دے سکیں 

اور اخبار نویسوں کے واسطے اور ذریعے سے بجٹ زدہ عوام کی سرکاری دلجوئی کر سکیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسے فریقین کی اوقات بتانی تھی یعنی صحافیوں اور وزیر کی اوقات کو یہ دونوں کیا ہیں ،کون ہیں اور کتنی عزت و بے عزتی اور کتنی غیرت اور حمیت کے مالک ہیں۔ مختصراً یوں کہیں کہ یہ کیا ہیں کون ہیں بلکہ کیوں ہیں۔
پہلے میں اپنی بات کرتا ہوں صحافیوں کی۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم کسی اخباری ادارے کی ملازمت ضرور کرتے ہیں لیکن نمایندگی ملک و قوم کی کرتے ہیں۔ یہی نمایندگی ہمارا دین و ایمان ہے اور ہم ہر حال میں اسی پر قائم رہتے ہیں۔ اپنے پیشے کی عزت اور وقار کے لیے جیلوں میں جاتے ہیں ،کوڑے کھاتے ہیں اور کبھی جان بھی دے دیتے ہیں لیکن اپنے صحافتی ایمان اور اقتدار پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہی ہماری صحافت اور یہی ہماری زندگی ہے اور یہ سب کچھ ایسا ہے جو صرف دعویٰ نہیں تاریخ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کوئی کھوکھلا دعویٰ نہیں ہے۔
ہمارے بزرگوں اور ہم عصروں نے اپنے عمل سے یہ سب ثابت کیا ہے اور اپنے کردار اور عمل سے یہ سب لکھ دیا ہے۔ جب میں نے ٹی وی پر ایک کلرک قسم کے وزیر کو منہ سے جھاگ اڑاتے اور کسی صحافی کو اپنی اس پریس کانفرنس سے نکل جانے کا حیران کن حکم صادر کرتے دیکھا ہے تو اس لمحے میں اپنی طویل صحافتی زندگی کی سب سے بڑی حیرت سے دوچار ہوا ہوں۔ ایک ایسی انہونی جو صحافت کی تاریخ کی سب سے بڑی انہونی تھی اور کوئی پرانا صحافی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آج تک کسی وزیر وغیرہ نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ جرات نہیں کی کہ کسی صحافی کو ایک ایسے عجیب انداز میں نکل جانے کا حکم دے جو وہ اپنے کسی چپڑاسی کو بھی نہیں دے سکتا۔ کیا ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب ہم اخبار نویسوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کا ہر رشتہ دار وزیراعظم ہے اور ہر دوسرے پاکستانی کو کمی کمین سمجھتا ہے اور یہ اس کا حق ہے جب کہ ڈار صاحب تو میاں صاحب کے سمدھی ہیں اور یوں بہت قریبی اور اہم رشتہ دار ہیں اگر وہ یہ اختیار رکھتے ہیں تو اس میں تعجب کی بات نہیں۔ بہر کیف جناب ڈار صاحب جو وزیر خزانہ ہیں ہمیں اپنا تعارف کرا چکے ہیں اور میں اپنی برادری سے عرض کروں گا کہ اگر وہ صحافت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی اوقات میں رہیں۔
جو عزت بچ گئی ہے اس کی حفاظت کریں۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیر موصوف کی یہ بات سن کر کچھ صحافی پریس کانفرنس میں کھڑے ہو گئے اور انھوں نے احتجاج کیا کہ وزیر کا رویہ غیر اخلاقی اور غیر صحافتی ہے، بتایا گیا ہے کہ جب بہت سارے صحافیوں کی غیرت ایک ساتھ جاگ اٹھی تو اس کی کچھ تپش جناب وزیر تک بھی پہنچی اور انھوں نے معذرت کر لی۔ یعنی پہلے تو جی بھر کر بے عزتی کرو جو ہمیں ٹی وی کا کیمرہ دکھا رہا تھا پھر معافی مانگ لو اور بات آئی گئی کر دو۔
میں اس دن سے جب میاں صاحب نے اقتصادی شاہراہ پر ملک بھر کی اپوزیشن کو متفق کیا ہے ان کا بہت مداح ہوں کیونکہ انھوں نے ایک بہت ہی بڑا سیاسی کارنامہ سر انجام دیا ہے جو لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم اسے بھی کالا باغ بنا دیں گے وہ بھی خاموش ہو گئے، میاں صاحب کے اس سیاسی کارنامے کو پاکستان کی مضطرب تاریخ میں اونچی جگہ ملے گی۔
اگر اسے غلط نہ سمجھا جائے تو میاں صاحب نے دوسرا کارنامہ یہ سرانجام دیا ہے کہ تندخو اور اکڑے ہوئے صحافیوں کو اپنے ایک وزیر کے ذریعے ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ بھری پری پریس کانفرنس میں ایک وزیر نے ایک صحافی کی جی بھر کر بے عزتی کی، جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا تو یقین تھا کہ اب یہ پریس کانفرنس کا آخری سین ہو گا اور صحافی بائیکاٹ کر دیں گے لیکن ہمارے بھائیوں نے کمال جرات اور صبر کے ساتھ وزیر صاحب کی یہ ڈانٹ ڈپٹ سرکاری تحفہ سمجھ کر قبول کر لی، سب کچھ ہضم کر لیا اور وزیر صاحب کی طرف سے معذرت کے بعد پھر سے قلم چلانے لگ گئے۔
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
میں اس سانحے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں عمر بھر کی رپورٹنگ کے بعد اب قدرے محفوظ شعبے میں آ گیا ہوں۔ کالم لکھتا ہوں اس میں الفاظ کی ہیرا پھیری کی بھی گنجائش رہتی ہے اور اپنی بات مختصرترین تحریر میں بیان کر لیتا ہوں۔ مضمون کو کالم کا نام دے کر دو تین اخباری صفحات پر پھیلاتا نہیں ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ کسی وزیر کی جھڑک سے بھی بچ کر رہتا ہوں، یوں بڑے آرام سے ہوں اور جو حالات ہیں اور میرے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ عزت کا کلچہ کھاتا ہوں اور وزیروں سے بچ کر رہتا ہوں۔
میاں صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اور ہر اخبار نویس کو اس کی اوقات بتا دی ہے لیکن ایک گلہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چپت لگاتے تو اچھا تھا، بہر کیف انھوں نے جو کیا کام تو ہو گیا اب میرے صحافی بھائی نخرہ بازی کم کریں گے اور اپنی اوقات میں رہیں گے۔ یہ میاں صاحب کی دوسری بڑی مہربانی ہے جو ان دنوں ان کی طرف سے قوم کو ارزاں ہوئی ہے، پہلے معاشی راہداری پر قومی اتفاق اس کے بعد صحافت کی تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کو ان کی اوقات کی یاد دہانی۔

No comments:

Post a Comment