بہت برس پیشتر انگلستان میں میرے ایک ترک دوست نے ہم پاکستانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ مجھے تم لوگوں کی سمجھ نہیں آتی‘ تم ہمیشہ دنیا کے دیگر مسلمانوں کی نسبت اپنے آپ کو اسلام کے چیمپئن ثابت کرتے رہتے ہو…دوسروں کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانا ایک مقدس فرض سمجھتے ہو…جان لو کہ دنیائے اسلام کی سٹیج پر تمہارا کوئی اہم کردار نہیں ہے تم زیادہ سے زیادہ ایک ایکسٹرا کردار ہو…ظاہر ہے مجھے اسکے اس کومنٹ سے بے حد رنج پہنچا تھا‘ کہ میڈیا سے متعلق ہونے کی وجہ سے میں خوب جانتا تھا کہ ایک ایکسٹرا کیا ہوتا ہے…کسی بھی ڈرامے میں ایک ویٹر جو میز پر چائے رکھ کر چلا جاتا ہے‘ ایک پان فروش جو ڈرامے کے کسی مرکزی کردار کو صرف اتنا کہتا ہے کہ باؤجی پان کھاؤ گے یاپھر کسی تاریخی ڈرامے میں دربار میں ساکت کھڑا ایک چوبدار…جب کسی ڈرامے کی کاسٹنگ مکمل ہو جاتی تھی تو پروڈیوسر اپنے اسسٹنٹ سے کہا کرتا تھا کہ سکرپٹ تمام اداکاروں کو پہنچا دو اور چار تانگوں کا بھی بندوبست کردو…تانگے ٹی وی کی زبان میں ایکسٹر اداکاروں کو کہا جاتا ہے اور یہ تانگے ٹیلی وژن کے برآمدوں میں یا گیٹ کے باہر گھومتے پھرتے رہتے تھے کہ جانے کب ہماری ضرورت پڑ جائے…تو کیا ہم پاکستانی اسلام کی سٹیج کے تانگے ہیں۔۔
ایکسٹرا ہیں جنکاکوئی بنیادی کردار نہیں ہے…میں اس نکتۂ نظر سے مکمل طور پر متفق نہیں ہوں‘میں سمجھتا ہوں کہ ہم ماضی میں بے حد اہم کردار ادا کر چکے ہیں لیکن ان دنوں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ترک ٹھیک کہتا تھا ہم اپنا کردار تو سنبھال نہیں سکتے اور دوسروں کو اپنے گرانقدر مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں‘ آہستہ آہستہ تانگے ہوتے چلے جارہے ہیں‘ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں‘ برما میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو شدید احتجاج کرتے ہیں لیکن اپنے ہاں عقیدے کے نام پر جو سینکڑوں قتل ہو رہے ہیں‘ ظلم ہو رہا ہے اس سے چشم پوشی کرتے ہیں…اگر احتجاج ہوتا ہے تو صرف اورصرف اس کمیونٹی کا جس کے افراد کو چن چن کر مارا جا رہا ہے اور یاد رہے اس احتجاج میں قطعی طور پر وہ لوگ شامل نہیں ہوتے جو برما کے مسلمانوں پر ظلم کے حوالے سے پیش پیش ہوتے ہیں…ہم اس سلسلے میں بنگلہ دیش کو بھی خوب رگیدتے ہیں کہ وہ ان مسلمانوں کو پناہ کیوں نہیں دیتا ہمیں دیکھو ہم نے بیس لاکھ افغانیوں کو پناہ دی جنکی وجہ سے پاکستان کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
ہیروئن اور کلاشنکوف کا دور دور تک نام و نشان نہیں…اور ہم نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزارنے والے ان بہاریوں کو پناہ دینے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا جنہوں نے اپنی پاکستانی شناخت ترک کرنے سے انکار کردیا…پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں چند بزرگ مذہبی رہنماؤں کو عدالت نے غداری کے جرم میں موت کی سزا دی تو ہماری مذہبی جماعتیں سڑکوں پر آگئیں اور بنگلہ دیش کی جمہوری حکومت کے خوب خوب لتے لئے…کیا یہ بنگلہ دیش اور اسکی عدالتوں کا معاملہ نہیں ہے‘ بے شک ان فیصلوں میں سے انتقام کی شدید بو آتی ہے لیکن ہمیں مداخلت کا کیا حق ہے…ہم یہ حق اپنے گھر میں سینکڑوں گمشدہ لوگوں کے بارے میں کیوں استعمال نہیں کرتے‘ درہ بابو سر اور شاہراہ قراقرم پر قتل کردیئے جانے والے معصوم لوگوں کو ہم کیوں اپنی توجہ کا حقدار نہیں سمجھتے‘ نانگا پربت کے دامن میں ہلاک کئے جانے والے درجن بھر غیر ملکی کوہ نوردوں کیلئے کیا کسی نے ایک آنسو بہایا؟
دراصل ہم اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں اور مذہب کی اپنی توجیح کی روشنی میں کیا ظلم ہے اور کیا نہیں ہے کا انتخاب کرتے ہیں‘ اگر کوئٹہ میں ایک درجن میڈیکل طالبات ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو جاتی ہیں تو یہ ظلم نہیں ہے…انہیں ہلاک کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاتا جبکہ نہ صرف ملالہ بلکہ اس کا پورا خاندان غدار قرار دیا جاتا ہے‘ باقاعدہ کف افسوس ملا جاتا ہے کہ ہائے ہائے یہ مرکیوں نہ گئی…کیسی گولی تھی جس کا نشان بھی باقی نہیں رہا…دماغ میں گولی لگتی تو مر نہ جاتی…وغیرہ…یو این او میں اس نے جو تقریر کی وہ یقینااس کی لکھی ہوئی نہیں تھی لیکن اس میں کونسا ایسا فقرہ تھا جس کیلئے اسے غدار قرار دیا گیا…تقریر کے اختتام پر پوری دنیا سے آئے ہوئے مندوبین اور ان میں مسلمان ممالک بھی شامل تھے اسے ایک سٹینڈنگ اوویشن دی…نیو یارک میں متعین ایک پاکستانی سفارتکار کا کہنا ہے کہ ایک مدت بعد ہمیں بھی سر اٹھاکر چلنے کا موقع ملا…عرب بہار کی میرے لئے سب سے بڑی خوش خبری آمر حسنی مبارک کا زوال تھا اور محمد مرسی کا مصری عوام کامتفقہ انتخاب تھا…
مصر ایک ایسا ملک ہے جو عرب عوام کے راستے متعین کرتا رہا ہے‘ وہاں جمہوریت کا قیام میرے جیسوں کیلئے باعث مسرت وصد افتخار تھا اور جب جنرل الیسی نے مرسی کو معزول کرکے خوداقتدار سنبھال لیا اور ہزاروں لوگوں کو تہہ تیغ کردیا تو میں ایک گہرے رنج میں چلا گیا کہ کیا ہم مسلمان ہمیشہ بادشاہوں اور فوجی آمروں کے شکنجے میں ہی جکڑے رہیں گے‘ بعدازاں مرسی کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آنے والے عوام کو جس بے دردی سے…جیسے وہ انسان نہ ہوں جانور ہوں…ہلاک کیاگیا تو دنیا بھر میں اسکے ردعمل میں شدید احتجاج ہوا‘ یورپی یونین کے ممالک خاص طورپر جرمنی اور سویڈن نے محمد مرسی کے حق میں بیان دیئے اور کہا کہ قانونی طورپر وہ اب بھی صدر ہیں یہاں تک کہ امریکہ نے بھی مذمت کی چاہے اندر خانے وہ خوش ہوا ہو…لیکن یہ سعودی عرب تھا جو سب سے پہلے جنرل الیسی کے اس غیر جمہوری اقدام کی حمایت میں اتنا آگے چلا گیا کہ اس نے جنرل صاحب کو کروڑوں ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا…سعودی عرب نے تو محاورۃً گھی کے چراغ جلائے‘ قطر اور کویت نے بھی کھل کر جنرل کی حمایت کی…قتل عام کے بعد جب پوری دنیا اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کر رہی تھی یہ سعودی عرب تھا جس نے جنرل الیسی سے کہاکہ مرسی کی حمایت میں نکلنے والے سب لوگ دہشت گرد ہیں انہیں ہلاک کرنا جائز ہے…
پاکستانی عوام اور میڈیا نے بھی جنرل الیسی کی بربریت کی کھلے لفظوںمیں مذمت کی لیکن ہماری مذہبی جماعتوں کے ساتھ ایک عجیب ٹریجڈی ہوگئی‘ انہوں نے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا‘ امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے محمد مرسی کی حمایت کا اعلان کیا لیکن وہ سعودی عرب کے خلاف ایک نعرہ بھی بلند نہ کر سکے جو دراصل جنرل الیسی کا سب سے بڑا سپورٹر تھا‘ ہمہ وقت اسے ہلاشیری دیتا تھا کہ فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں… کیا کسی جماعت نے سعودی عرب کے سفارت خانے کے باہر کوئی مظاہرہ کیا…نہیں بالکل نہیں…وہ اس کی ناراضگی مول لینا افورڈ نہیں کر سکتے تھے اس میں نقصان بہت تھا…بقول کسے کیا یہ ایک کھلا تضاد نہیں…دراصل مصر میں اخوان کی کامیابی نے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کر دیئے‘ محمد مرسی کو پاکیزہ عظمت کے میناروں پرچڑھا دیاگیا اور اخوان کو ایک آسمانی جماعت قرار دیاگیا اور قطعی طورپر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیاگیا کہ محمد مرسی کو صرف اخوان نے نہیں بلکہ تمام ایسی قوتوں نے ووٹ دیئے جو مصر میں جمہوریت کی بقاء چاہتی تھیں اور جسکے لئے انہوں نے بھی بے شمار قربانیاں دی تھیں۔
اسکے علاوہ اخوان نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران بے مثال استقامت کامظاہرہ کیا‘ انکے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا‘ موت کے گھاٹ اتارا گیا لیکن انہوں نے کبھی بھی کسی آمر یا فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ مفاہمت نہیں کی‘ اپنے موقف پر ڈٹے رہے‘ اقتدار کے لالچ میں کسی آمر یا فوجی کی گود میں نہیں جابیٹھے…جبکہ پاکستان کی بیشتر مذہبی جماعتیں…آپ سیانے ہیں تھوڑے لکھے کو بہتا سمجھیں‘ امید ہے سمجھ گئے ہونگے…فی الحال محمد مرسی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے…کوئی بھی جنرل آتا تو نوے دن کے لئے ہے لیکن جاتا سی ون تھرٹی کی مرضی سے ہے… اگر برادر عرب یونہی جنرل الیسی کی پشت پناہی کرتے اسے مالامال کرتے رہیں گے‘ فوج‘ پولیس‘ انتظامیہ اسکے ساتھ ہے تو وہ آسانی سے تو نہ جائے گا… ہمیں اگلی عرب بہار کا انتظار کرنا ہوگا…کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر…
No comments:
Post a Comment