سرور کہنے لگا تارڑ صاحب آپکی تحریروں کے ناتے میں آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں‘ مجھے فکر مندی سی ہوگئی کہ ظالم جانے اور کیا کیا کچھ جانتا ہے‘ کھانے کے بعد میں نے ڈاکٹر احسن اور کامران کو اپنے کمرے میں طلب کرکے ان کی مناسب گوشمالی کی کہ راکا پوشی بیس کیمپ تک جانے والا راستہ کم از کم میری عمر کے بندے کیلئے تو ناممکن لگتا ہے تو جھوٹ بولتے تھے‘ اس پر کامران جس کا تن وتوش ایک میڈیم نوعیت کے جن جتنا ہے اٹھا اور فرش پر بیٹھ کر میری پنڈلیاں دبانے لگا کہ سر وہ پگڈنڈی نہیں ایک جیپ روڈ ہے اور جب آپ اس پر چلیں گے تو چڑھائی محسوس ہی نہیں کرینگے… یوں جیسے ہموار میدان میں چل رہے ہیں اور اس کے بعد تارڑ صاحب ندیاں‘ جنگل‘ آبشار میں آپ خوش ہو جائیں گے‘ بہت آسان ہے‘ میں پھرورغلایا گیا تھا…یوں بھی وہ اتنے کمال کے مالشئے انداز میں پنڈلیاں دبا رہا تھا کہ مجھ پر غنودگی سی طاری ہوگئی اور ایک حماقت آمیز مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل گئی اور میں نے ان کا اعتبار کرلیا‘اس دوران مجھے لاہور سے ایکسپریس چینل کے پروڈیوسر وقار ملک کا فون آگیا اور وہ بے حد ہیجان میں تھا…تارڑ صاحب مجھے کہیں سے خبر ملی ہے کہ آپ راکا پوشی بیس کیمپ تک جانے کیلئے نگر پہنچ گئے ہیں۔
پلیز میرا انتظار کیجئے میں آپ کی کوہ نوردی کی ڈاکومنٹری بنانے کیلئے پہنچ رہا ہوں…میں نے سوچا یہ غریب کہاں لاہور سے چل کر شاہراہ قراقرم پر دھکے کھاتا نگر تک آئیگا تو میں نے اسے بتایا کہ ہم لوگ تو کل صبح روانہ ہو رہے ہیں‘ تم تردد نہ کرو زندگی رہی تو ڈاکومنٹری پھر سہی تو وہ کہنے لگا…سر میں تو اپنی کار میں سوار بشام کے قریب پہنچ چکا ہوں‘ وہاں اپنی کار پارک کرکے بس کے ذریعہ کل شام تک مناپن پہنچ جاؤں گا…پلیز میرا انتظار کیجئے اور اگر نہیں رک سکتے تو میں تنہا آپ کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوں گا‘ وقار اس سے پیشتر شمال کے بارے میں ’’ سفر ہے شرط‘‘ نام کا پاپولر پروگرام پیش کر چکا تھا‘ چنانچہ ہم نے اپنی روانگی ایک روز کیلئے موخر کر دی اور اگلے روز دیران ریسٹ ہاؤس میں قلانچیں بھرتے رہے‘ کچے سیب کھائے‘ چیریاں نوش کیں‘ پرندہ جات جو مسلسل باغوں میں چہچہاتے تھے ان کے سریلے گیت سنے۔
پچھلے پہر ریسٹ ہاؤس کے مختصر لان میں جو ایک مختصر بچہ سومنگ پول تھا اس میں میرے علاوہ سب نے ڈبکیاں لگائیں‘ البتہ جب کامران نے اس میں چھلانگ لگائی تو پول کا نصف سے زیادہ پانی کناروں سے بہہ نکلا اورپول تقریباً خالی ہوگیا… کامران کو خوب لعن طعن ہوئی…بعد ازاں سب حضرات گھوڑے تو نہیں خرگوش وغیرہ بیچ کر سوگئے‘اس شام ہم مناپن گاؤں میں نکل گئے‘ یہ کچھ ایسا خوش نظر تو نہ تھا لیکن راکا پوشی کے پس منظر نے اسے پرکشش بنا دیا تھا‘ امام بارگاہ میں خوب روشنی اور رونق تھی‘ ہم دیکھ سکتے تھے کہ زمین کی زرخیزی اس گاؤں کی خوشحالی کا سبب تھی یہاں تک کہ شاید زعفران بھی کاشت کیا جاتا ہے‘ ہم سب کی جانب اپنائیت اور محبت کی نظریں اٹھتی تھیں‘ ہم گاؤں سے باہر کچھ دور اس راستے پر چلے جس کے آخر میں درے کے دامن سے ہمارے سفر کا آغاز ہونا تھا‘ راستہ اتنا آسان ہر گز نہ تھا لیکن اب کشتیاں بادبان کھول کر پانیوں میں اتر چکی تھیں۔
میں اپنا ارادہ بدل نہیں سکتا تھا‘ راستے کے پہلو میں چیری کے درختوں کا ایک جھنڈ تھا‘ ایک جھونپڑا تھا‘ ایک مہربان شکل کا نگری دہقان ہمارے لئے سرخ چیریوں سے لبریز ایک طشتری لئے آتا تھا‘ ہم نے باغ کی منڈیر پر بیٹھ کر ان چیریوں کا کام تمام کیا‘ راکا پوشی کی برفیں تاریکی میں اتر رہی تھیں‘ رات گئے تھکا ماندہ لیکن مسکراتا ہوا وقار ملک بھی پہنچ گیا اور آرام کئے بغیر شوٹنگ میں مشغول ہوگیا… اگلی سویر دیران ریسٹ ہاؤس کے برآمدوں میں ہمارے رک سیک بندھے پڑے تھے…سب لوگ کوہ نوردی کے لباس میں تھے… سفر کے آغاز کے لمحوں میں ہمیشہ ایک اداسی دامنگیر ہوتی ہے ‘سب چپ ہوتے ہیں…پچھلے برس کچھ دوستوں کے ہمراہ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک جانے کا پروگرام طے ہوا تھا۔
میں نے سوچ رکھا تھا کہ دو تین منزلوں کے بعد میں نامچے بازار نامی قصبے میں رک جاؤں گا اور بقیہ ٹیم ممبر جو سب مجھ سے ڈھیر چھوٹے ہیں ایورسٹ کو نکل جائیں گے…اس مہم کے لئے میں خصوصی طور پر ٹمبر لینڈ کے ہائکنگ بوٹ اور نارتھ فیس کے مشہور زمانہ برانڈ کی جیکٹ خرید کرلایا تھا‘ چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر ایورسٹ کی مہم ڈراپ ہوگئی اور اب میں وہی بوٹ پہنے راکا پوشی کے دامن تک جانے کا ارادہ رکھتا تھا‘ بوٹ مجھے تھوڑے سے تنگ محسوس ہوئے اور بعد میں انہوں نے مجھے ذلیل کیا…میرے اندر بھی ایک اداسی تھی‘ میں جانتا تھا کہ اس کوہ نوردی کے بعد میری کوہ نوردی کے دن اختتام کو پہنچ جائیں گے‘ میں پہاڑوں میں یوں سارا سارا دن پیدل نہ چلوں گا…ہاں گئے دنوں کی یاد میں ایک مختصر سی کوہ نوردی کرلی اورپھر آرام کیا…اسکے علاوہ میرے اندر ایک عجیب مسرت بھی پھوٹتی تھی‘ جیسے کسی من موہنی نے مڑ کر ایک نظر دیکھ لیا ہو تو جوانی میں ایسی ہی مسرت دل سے پھوٹتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کے کرم سے میں چوہتر برس کی عمر میں کوہ نوردی کے لئے کمربستہ تھا… مجھ میں ڈر تو تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ مستحکم یہ یقین تھا کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہواکہ میں نے کوئی بلند برفانی سفر اختیار کیا ہو اور راستے میں کوئی حادثہ ہوگیا ہو‘ موسم شدید ہوگئے ہوں یا میرے بیمار پڑنے سے مہم ناکام ہوگئی ہو‘ تو اس بار بھی میں منزل تک پہنچ جاؤں گا‘ مجھ پر میرے رب کی خاص عنایت تھی‘ مجھے یقین تھا‘ چاہے گرتا پڑتا نیم اپاہج ہو کر پہنچوں لیکن پہنچ میں نے جانا ہے…ابھی مناپن گاؤں کے گھروندے اور کھیت سائے میں تھے جب ہم ایک ویگن پر سوار اس زگ زیک راستے کے آغاز میں پہنچ گئے جو کہیں آسمانوں میں گم ہوتا تھا‘ برابر میں ایک برفانی نالہ راکا پوشی کے کسی گلیشئر میں سے جنم لیتا ایک چینی اژدھے کی مانند چنگھاڑتا نیچے آرہا تھا‘ جیسا کہ میرا دستور تھاسفر کے آغاز میں‘ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے سب ٹیم ممبروں نے ایک نیم دائرے میں کھڑے ہو کر سفر کی دعا پڑھی۔
میں نے آہستہ آہستہ چلنا اور چڑھنا شروع کر دیا…سفر کا آغاز تھا سب لوگ ایک دوسرے سے چہلیں کر رہے تھے‘ منزل تک پہنچتے وہ ایک دوسرے سے بیزار ہو چکے ہونگے‘فہد ایک کھلنڈرا نوجوان اپنی واکنگ سٹک سے کرکٹ کھیل رہا تھا‘میں محسوس کر رہا تھا کہ اب عناصر میں اعتدال کہاں‘ توازن قائم رکھنا ذرا دشوار ہورہا تھا لیکن میں چل سکتاتھا‘ صرف مجھے یہ احتیاط کرنی تھی کہ اوپر اس بلندی کو نہیں دیکھنا جس میں یہ راستہ گم ہوتاتھا‘ اپنے اگلے قدم کو دیکھنا ہے‘سیاچن جنگلی گلابوں کی ایک جھاڑی دکھائی دی تو جی خوش ہوگیا‘ آس پاس جو بوٹیاں اورپودے تھے ان میں سے ایک خاص بلندی کی خمارآلود مہک آتی تھی اور حسب معمول جھیل میرا گارڈین اینجل یعنی حفاظتی فرشتہ میرے ساتھ ساتھ قدم رکھتا تھا‘ راکا پوشی بیس کیمپ کا سفر شروع ہو چکا تھا‘ میرا دل خوشی سے بھرگیا اور آنکھوں میں تشکر کی نمی تیرنے لگی۔
No comments:
Post a Comment