راکاپوشی نگر: مستنصر حسین تارڑ

mustansar-hussain-tarrarweboptimizedراولپنڈی کی گھنی بے ترتیب اور ہولناک ٹریفک میں ایک کھٹارا ٹیکسی کی چھت پر ہمارے سات رک سیک یعنی سفری تھیلے دھوپ میں پگھل رہے تھے‘ گرمی سے نڈھال بدبو دار اور آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہم اس ٹیکسی کے پیچھے چلے جاتے تھے جو پیرودھائی بس سٹینڈ کی جانب رواں تھی جہاں ایک آرامدہ ویگن ہمیں شاہراہ قراقرم کے راستے راکا پوشی کی برفوں تک لے جانے کی منتظر تھی…ابھی میں چند روز پیشتر چین کے مسلمان صوبے کا ایک طویل سفر کرکے لوٹا تھا‘ ابھی اس کی تھکن بدن میں تھی تو میں پھر کس سلسلے میں ایک اور سفر پر نکل کھڑا ہوا تھا…دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑوںمیں سے ایک راکا پوشی کے بیس کیمپ تک کوہ نوردی کرنے کیلئے پھر سے مائل سفر تھا‘ دراصل مجھے بہکایا گیا تھا ورغلایا گیا تھا کہ سر ہم آپ کو ساتھ لے کر جائینگے‘ سر آنکھوں پر بٹھائیں گے‘ آپ کو کچھ تکلیف نہ ہوگی راکا پوشی بیس کیمپ ریاست نگر کے قصبے مناپن سے صرف دو روز کی مسافت پر واقع ہے…اتنی آسان کہ جیسے آپ صبح کی سیر کر رہے ہیں‘ سر آپ تھک گئے تو ہم آپکو اٹھا کر لے جائینگے…تو میں آسانی سے بہک گیا‘ میں ورغلایا اسلئے بھی گیا کہ میں ورغلایا جانا چاہتا تھا۔
ایک مدت سے پہاڑوں کے اندر قدم نہ رکھا تھا‘ میں شمال سے اداس ہو چکا تھا‘ اس کی برفوں کو دیکھنے کیلئے میری آنکھیں ترس گئی تھیں‘ مجھے بھٹکانے والوں میں مرکزی مجرم فیصل آباد کا ڈاکٹر احسن تھا‘ ایک ایسا سرپھرا جس نے میری معلومات کے مطابق پاکستان کے شمال کی سب سے زیادہ کوہ نوردی کی تھی‘ وہ پچاس کے لگ بھگ ٹریکس کر چکا ہے یہ ایک کریزی ڈاکٹر ہے‘ وہ اگر دوچار ماہ شمال سے غیر حاضر رہے تو دیوسائی کے ریچھ اس سے اداس ہو جاتے ہیں‘ مارموٹ اس کی یاد میں غمگین ہو کر سیٹیاں بجانے لگتے ہیں‘ موسم سرما میں شمشال‘ ہنزہ‘ شگر اور دور دراز وادیوں کے لوگ اسے ملنے فیصل آباد چلے آتے ہیں…اس مسلسل آوارہ گردی کے باوجود وہ کیسے ایک کامیاب صنعت کار ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آتا اور پھر وہ میری شمال کی تحریروں کا شیدائی ہی نہیں حافظ ہے…دوسرا مجرم کامران سیالکوٹیا ہے‘ ایک اورپاگل خانہ جو ایک کمال کا فوٹوگرافر اور کوہ نوردہے’’ برڈز آف سیالکوٹ کیلئے پرندوں اور خاص طورپر الوؤں کی تصویریں کھینچ رہا ہے۔
ابھی اطلاع ملی ہے کہ وہ کسی ٹیم کے ساتھ سنوٹانگر تلاش کرنے کی خاطر کہیں بلند پہاڑوں میں جا چکا ہے‘ پھر کامران کے ’’ استاد جی‘‘ ندیم خاور ہے جسے دیوسائی کے ریچھوں کی تصویریں اتارنے کا خبط ہے‘ کسی برفانی کھوہ میں ہفتوں پڑا رہے گا‘ چنوں پرگزارا کرے گا تاکہ ریچھ اپنی سرمائی نیند پوری کرکے غاروں سے نکلیں تو وہ ان کی تصویریں بنائے‘ موصوف کے بال کاندھوں تک آتے ہیں‘ کھچڑی ہوچکے ہیں چنانچہ راستے میں کسی چیک پوسٹ پر کوئی پولیس اہلکاررات کے وقت دریافت کرتا کہ اس ویگن میں کوئی غیر ملکی تو نہیں ہے اور ہم کہتے کہ نہیں تو وہ اندر جھانک کر کہتا اندر میم بٹھائی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کوئی غیر ملکی نہیں ہے۔
ہم فوراً میم کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالتے اورندیم خاور کی بڑھی ہوئی داڑھی دیکھ کر اہلکار شرمندہ ہو جاتا… جیسے رقاصائیں اپنے’’ استاد جی‘‘ کی عزت کرتی ہیں بالکل ایسے ہی کامران فوٹو گرافری میں اس گیسو دراز استاد جی کی تعظیم کرتا ہے‘ ان کے سو اایک ڈار صاحب تھے جو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں فوٹو گرافی پر لیکچر دیتے تھے اور فہد تھا ایک خاموش طبع رومانوی خصلت کا نوجوان جو منہ اٹھائے ہمیشہ خلاؤں میں گھورتارہتا اور پھر سندھی مانوں جمیل عباسی تھا حیدر آباد سے خصوصی طور پر میری رفاقت کی خاطر آیا تھا…اگرچہ خود پیروںکے خاندان سے تھا لیکن میری تعظیم اور خدمت پیروں سے بڑھ کر کرتا تھا…مجھے ہمیشہ خدشہ رہتا کہ کسی روز عالم بے خبری میں یہ مجھ پر ایک سبز چادر چڑھا دے گا اورمیرے گرد دھمال ڈالنے لگے گا‘ وہ ہر لمحہ میرا خیال رکھتا یہاں تک کہ عوام الناس اسے تارڑ صاحب کا جن کہنے لگے…اس جن کی ایک نامکمل سی غیر شرعی داڑھی بھی تھی…’’ راکا پوشی نگر‘‘ مہم کے سات افراد میں سے چارفوٹو گرافر تھے جو اپنے گناہوں کے بوجھ سے بھی زیادہ وزنی کیمرے اور دیگر آلات جن میں یہ لمبے لمبے فحش سے بے شمار لینز تھے اٹھائے پھرتے‘ ان چاروں کی آنکھوں کے ساتھ ہمہ وقت کیمرے جڑے رہتے‘ گمان ہوتا کہ یہ انکے ساتھ ہی پیدا ہوئے ہیں۔
وہی منزلیں وہی راستے… پیرودھائی سے تین بجے روانہ ہوئے‘ راستے میں ہری پور کے پکوڑے‘تربوز اور خربوزے کھائے‘ مانسہرہ میں اشوک کی چٹانوں پر اس کا فرمان پڑھا کہ پوری سلطنت میں جانوروں کیلئے شفاخانے بناؤ تاکہ ان کو بیماریوں سے نجات ملے اور پھر اپنا ایک فرمان یادآگیا کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں کو ہلاک کرو تاکہ تم جنت میں جاسکو‘ بے شک وہ بعد میں لولے لنگڑے ہو کر گلیوںمیں گھسٹتے بھیک مانگتے پھریں…چھترپلین‘ شنکیاری‘ بٹ گرام کی خوش نظر بستیاں اورپھررات کے دس بجے شیردریا سندھ کی گونج کے دامن میں بشام…پی ٹی ڈی سی موٹل کی اداس عمارت میں سے بابا گلشن ظاہر ہوا…وہ جوان تھا جب اس موٹل کا ملازم ہوا اور اب بوڑھا ہو چکا تھا‘ میں بھی جوان تھا جب پہلی مرتبہ اس موٹل میں ٹھہرا تھا اور اب بوڑھا ہو چکا تھا…گلشن کودیکھ کر میری آنکھوں میں نمی آگئی۔
وہ بچوں کے بارے میں پوچھنے لگا خاص طورپر عینی کے بارے میں کہ بیٹی کو بھی ساتھ لے آتے…اسے تو اس کے اصل سائیں لے کر چلے گئے‘ وہ میرے پاس کہاں…ڈاکٹر بن چکی ہے‘ امریکہ میں رہتی ہے‘ میری فرمائش پر مجھے کمرہ نمبر22دیاگیا‘ پہلی منزل پر اسکی بالکونی میں میں گئی رات تک بیٹھا رہا… سندھ کی گونج میرے لئے ایک آب حیات تھی‘ کانوں میں اترتی تو گئے زمانے آنکھوں میں تصویر ہونے لگتے‘ ایک طویل سفر کے اختتام پر جب ہم واپس بشام آئے‘ اس کمرے میں ٹھہرے تو شام ڈھلے نیچے اتر کر سندھ کے کناروں پر چلے گئے‘ یکدم ایک تیز لہر آئی میرے پاؤں میں بچھی اور واپس جاتی ہوئی میری ایک چپل کو بھی اپنے زور سے ساتھ لے گئی…بچہ لوگ بے حد خوش ہوئے…کچھ دیر بعدعینی کہنے لگی ابو بوڑھے کو گھر جانے دیں…میں نے حیران ہو کر پوچھا کونسے بوڑھے کو…اس کی موٹی آنکھوں میں شرارت کے ستارے دمکتے تھے…دیکھیں ابو نیچے میدانوں میں کوئی بوڑھا مچھلیاں پکڑ رہا ہوگا اور آپکی یہ چپل اسکی کنڈی سے اٹک گئی ہوگی…اب وہ انتظار کر رہا ہوگا کہ کب دوسری چپل آئے جوڑا مکمل ہواور وہ اسے پہن کر گھر جائے…ابو بوڑھے کو گھر جانے دیں…میں نے ہنستے ہوئے دوسری چپل بھی پاؤں سے اتاری اور اسے بھی سندھ کے پانیوں میں پھینک دیا۔
کچھ دیر بعد سب حضرات تاکتے جھانکتے میرے کمرے میں آگئے اور محفل جم گئی… ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے…اگلے روز ہمیشہ کی طرح ہم داسو کے پل کے پار بلندی پر واقع برسین کے موٹل کی ویرانی میں ناشتے کیلئے رکے جو دوپہر کے کھانے میں بدل گیا‘ میں آج تک نہیں جان سکا کہ شاہراہ کے اوپر خشک چٹانوں میں گھرا یہ موٹل جو ہمیشہ ویران ہوتا ہے مجھے کیوں اپنی جانب بلاتا ہے اور پھر ہمیشہ کی طرح اسکے کمرہ نمبرچار میں گیا اور وہاں نیم اندھیرے میں ستھرے بستر پر دراز ہو کر اس تنہائی کو محسوس کرنے لگا…مجھے جب بھی میں برسین کے اس موٹل کے کمرہ نمبرچار میں داخل ہوا ہوں تو مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ میں کبھی نہ کبھی شاید پچھلے جنم میں کسی ایسے شخص کے ساتھ یہاںآچکا ہوں جو میرے دل کے قریب تھا اور اس ہوٹل میں صرف چار کمرے ہیں اور کمرہ نمبر چار ہمیشہ خالی ہوتاہے…میں ایک مدت کے بعد شاہراہ قراقرم پر سفر کر رہا تھا اور اس کی خطرناکیوں اور حیرتوں میں کچھ کمی نہ آئی تھی۔
سرشام ہم رائے کوٹ پل پر پہنچے جہاں سے فیئری میڈو کو راستہ جاتا ہے…ایک پرانے ڈرائیور نے مجھے پہچان لیا کہنے لگا’’ صاحب آج ڈیڑھ سو لوگ نیچے آیا ہے اور پونے دوسو کے قریب اوپر گیا ہے اوریہ سب آپ کی کتاب کی مہربانی ہے‘ آپ نے ہمارا رزق لگا دیا’’ اس پر میں نے کہاکہ یہ جگہ ایسی ہے کہ بالآخر پاکستانیوں نے اسے دریافت کرنا تھا‘ میری کتاب کی وجہ سے ذرا پہلے دریافت ہوگئی‘‘ اس نے مجھے فیئری میڈو کی تارڑ جھیل اور تارڑ پتھر کے بارے میں بھی بتایا جو ہر سیاح دیکھنے جاتا ہے یہاں بھی مجھے عینی بہت یادآئی جب ہم سب اس فیئری میڈو میں گئے تھے جہاں ہمارے سوا اور کوئی نہ تھا…
گلگت پہنچے تو رات ہو چکی تھی‘ وہاں سے نگر ریاست کے قصبے مناپن تک ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا‘ ویران ریسٹ ہاؤس کے باہر چیری اور سیبوں کے درختوں کی خوشبو میں‘ چاندی میں سفید چاند ہوتی راکا پوشی کے دامن میں ریسٹ ہاؤس کا مالک اور انچارج اسرار اور اس کی پیاری پری بیٹی اور بیٹا مقامی لباسوں اور زیوروں میں سجے ہاتھوں میں پھولوں کے انبار تھامے میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے‘ میری کوئی سرکاری یا مالی حیثیت نہ تھی اور اسکے باوجود شمال کے لوگوں نے مجھے ہمیشہ محبت سے اپنے دل میں جگہ دی…ان پیارے بچوں کے ہاتھوں میں اپنے لئے پھول دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں۔
کمرے کی کھڑکی کھولی تو راکا پوشی چاندنی میں نہائی اندر چلی آئی میں مدت سے تمہاری منتظر تھی‘ آنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔

No comments:

Post a Comment