انہوں نے حکومت سے درخواست کی جناب شاہراہ ہماری وادی میں سے گزاریئے ہم آپ سے ہر طرح کا تعاون کرینگے‘ تشریف لایئے… یوں وادی ہنزہ پوری دنیا سے خصوصی طورپر چین اورپاکستان سے منسلک ہوگئی اور ریاست نگر الگ تھلگ رہ گئی…اقتصادی ترقی‘ جدید سہولتوں اور سیاحوں کی منافع بخش آمد سے محروم ہوگئی… حالانکہ دیکھاجائے تو ہنزہ کی نسبت نگر کہیں زیادہ سرسبز اور زرخیز ہے‘ بے حد خوبصورت اور دل آویز ہے‘ دنیا کے عظیم ترین گلیشئر اس کی وادیوں میں اترتے ہیں‘ بلند ترین برفانی چوٹیاں اسکی دل کشی میں اضافہ کرتی ہیں اور تو اور ان خطوں کا اور دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑوں میں سے ایک یعنی راکا پوشی بھی نگر کی سلطنت میں ہے اور اکثر لوگ نادانی میں اسے ہنزہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں‘ علاوہ ازیں یہ بھی مشہور کر دیاگیا کہ نگر کے لوگ غصیلے اور کھردرے ہیں چنانچہ نگر گمنامی میں چلاگیا‘ ادھر ہنزہ کی شرح تعلیم سوفیصد ہے۔
وہاں بین الاقوامی سطح کے تعلیمی ادارے ہیں‘ یونیورسٹی ہے‘ سینکڑوں کی تعدادمیں پرسہولت ہوٹل اور شاپنگ سنٹر ہیں‘ اقتصادی ترقی عروج پر ہے اور لوگ ملنسار اورمددگار ہیں اپنے ثقافتی ورثے پر فخر کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں…یاد رہے کہ اہل ہنزہ اسماعیلی مسلک کے پیروکار ہیں نگر والے شیعہ مسلمان ہیں…اس برس میں نے اہل نگر کے رویے اور مزاج میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی‘ ان کے بزرگوں اور علماء کرام نے ایک بہت بڑی غلطی کی کہ شاہراہ کو نگر میں سے گزرنے نہ دیا آج وہ خود اقرار کرتے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ انکے خوبصورت خطے کو وہ توجہ حاصل ہو جس کا کہ وہ حقدار ہے‘ ریاست نگر بھی دنیا کے نقشے میں نمایاں ہو…نگر کی سب سے بڑی پہچان تو ظاہر ہے برف کی دیوی‘ برف کا شہر‘ راکاپوشی ہے‘ دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک’’ رش لیک‘‘ ہے لیکن ان کے بعد’’ دیران ریسٹ ہاؤس‘‘ اور اس کا صوفی منش انچارج اسرار ہے‘ جن دنوں معجزے کر دکھانے والے شعیب سلطان آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے انچارج تھے تب پورے نگر میں رہائش کیلئے کوئی سہولت نہ تھی۔
وہ اپنے فرائض کے سلسلے میں نگر آتے تو رات گزارنے کے لئے دریا پارہنزہ جانا پڑتا…تب انہوں نے اسرار اور انکے بھائی لیاقت کو مائل کیا کہ وہ اپے گھر اور ملحقہ وسیع باغ کو ایک ہوٹل میں بدل دیں‘ اس کی تعمیر نو کیلئے شعیب صاحب نے خود بنک سے قرضہ حاصل کرنے میں ان بھائیوں کی مدد کی‘ تادم تحریر یہ نگر کا واحدباقاعدہ ہوٹل ہے اس کا اندرونی ماحول ثقافتی سحر انگیزی میں ڈوبا ہوا ہے اس کا ڈائننگ ہال ان خطوں کی قدامت کی نمائندگی کرتا ہے…خوراک میں اتنا تنوع اورذائقہ ہے کہ میں نے شمال میں اس سے بہتر کھانے نہیں کھائے اورپھر اسرار ایک ایسا دھیما بھی اورپرمزاح بھی خدمت گار میزبان جو ہر مہمان کی تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا…مناپن میں پہلی سویر مجھے کسی الارم کلاک نے نہیں عجیب خوش الحان اجنبی پرندوں کی چہکار نے جگایا…کھڑکی کو روپوش کرتی انگور کی بیلوں کے کچے خوشوں پر بھنبھناتی شہد کی مکھیوں نے جگایا اورراکا پوشی کی برفوں کو سونا کرتی سورج کی پہلی کرنوں نے جگایا…ناشتے کے بعد اسرار مجھے ریسٹ ہاؤس سے ملحقہ اس باغ بہاراں اور گلزاراں میں لے گیا جہاں چیری کی شاخوں پر چیری کے سرخ جواہرآویزاں تھے… بلند قامت اور گھنے درخت سیبوں سے بوجھل ہو رہے تھے…پرندے اس ڈال سے اس شاخ پر اترتے چہکتے تھے اورراکا پوشی کی برفیں گھنے پتوں میں سے جھانکتی کہتی تھیں’’ میں مدت سے تمہاری منتظر تھی‘ آنے میں اتنی دی کیوں لگا دی…اب آگئے ہو تو وہاں کیوں ٹھہر گئے ہو۔
میرے دامن میں آجاؤ…‘‘اس دوپہر نہ صرف مناپن سے بلکہ نگر کے دور دراز کے قصبوں سے میری آمد کی خبرپاکر بے شمار لوگ مجھے وفود کی شکل میں ملنے کیلئے آتے گئے…ان میں اساتذہ‘ طالب علم‘ سرکاری اہلکار‘ مذہبی سکالر اور عام کسان بھی شامل تھے… انہوں نے مجھے اپنے روزمرہ کے مسائل میں شامل کیا‘ کچھ سوال میری تحریروں کے بارے میں پوچھے اور ان سب کی ایک مشترکہ خواہش تھی کہ نگر کا بھرپور تعارف میڈیا اور سفرناموں کے ذریعے سے ہوناچاہئے تاکہ یہاں بھی سیاح آئیں کوہ نورد سکردو سے نہیں نگرسے سنولیک کے سفرپر جائیں تو آپ نے’’ ہنزہ داستان‘‘ کی بجائے’’ نگرداستان‘‘ کیوں نہیں لکھی…ہم فیئری میڈو والوں کو کہتے ہیں کہ شکر کرو تارڑ نے آج سے بائیس برس پہلے تمہارے بارے میں لکھ دیا تو آج روزانہ سینکڑوں لوگ فیئری میڈو جاتے ہیں‘ تمہارارزق لگ گیا ہے…تو کیا آپ ہمارے بارے میں نہیں لکھ سکتے۔ یہ ان لوگوں کی معصومیت تھی کہ صرف میرے سفرناموں کی وجہ سے شمال کے یہ خطے مشہور ہوگئے… درست کہ میں نے کچھ مقامات کا تفصیلی بیان لکھ کر پاکستانیوں کو متوجہ کیا‘تعارف کروایا اور آج بھی ہر دوسرا سیاح میری کسی نہ کسی سفرنامے کو بیگ میں ڈالے ادھر آنکلتا ہے لیکن اصل کمال تو یہاں کے لوگوں کا تھا جنہوں نے ان سیاحوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔
انکے لئے سہولتیں مہیا کیں…ناران کاغان کے لوگوں کی مانند بے بس سیاحوں کو لوٹا نہیں‘ میں اہل نگر کی اس محبت اور پذیرائی کا شکر گزار ہوا…کون کہتا ہے کہ اہل نگرکھردرے اور غصیلے لوگ ہیں…میں نے ان سے یہی گزارش کی آپ بھی اپنا رویہ تبدیل کیجئے‘ کچھ لچک پیدا کیجئے…ہر وقت چوکنے نہ رہئے کہ ہماری روایت اور عقیدے کو خطرہ ہے‘ سیاح آئیں گے تو آپ کی گلیوں بازاروں میں گھومیں گے‘ تاک جھانک بھی کرینگے محض اپنے تجسس کی خاطر کہ یہ لوگ کیسے زندگی کرتے ہیں‘ اپنے شب و روز کیسے گزارتے ہیں اور ان سے یہ توقع مت کیجئے کہ وہ آپ کی مرضی کا لباس پہنیں گے‘ موسیقی نہیں سنیں گے اور آپ کے تعین کردہ راستوں پر چلیں گے‘ پورے نگر میں سوائے دیران ریسٹ ہاؤس کے قیام کیلئے کوئی اور سہولت نہیں تو ہوٹل بنایئے‘ نیٹ پر ان کااعلان کیجئے‘ اپنے مناظر کی اشتہار بازی کیجئے تو لوگ آئیں گے اور میں دل و جان سے نگر کیلئے حاضر ہوں اور کبھی نہ کبھی’’ راکا پوشی نگر‘‘ نام کا سفر نامہ کتابی شکل میں تحریر کرونگا بہ شرط زندگی!
اس شام ہم دریا کے پار ناصر آباد گاؤں کی بلند سطح پر گئے جہاں سے راکا پوشی کا سب سے شاندار نظارہ دکھائی دیتا ہے‘ فوٹو گرافر حضرات غروب آفتاب کے منظر کو قید کرنے کی کوشش میں پاگل ہوگئے… اور جب راکا پوشی پر سورج کی آخری کرنیں بکھریں تو یہ حضرات اس منظر سے متاثر ہو کر اگر میں اجازت دے دیتا تو فوری طور پر بخوشی خود خوشی نہیں خودکشی کرلیتے۔ مناپن واپسی پر جب ہم راکا پوشی کے عین نیچے پہنچے تو میں نے لیاقت صاحب سے پوچھا کہ ہم کس راستے پر چل کر اس کے بیس کیمپ تک پہنچیں گے… انہوں نے چٹانوں سے چمٹی ایک پگڈنڈی کی نشاندہی کی جو بل کھاتی آسمانوں میں گم ہو رہی تھی…یہ اتنی عمودی تھی کہ اس پر چڑھتے ہوئے تو بندر بھی گر سکتے تھے اور میں جان گیا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا تھا… میں مارا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment