عقیل یوسفزئی
….. جون 2004ء کو جب وزیرستان میں مقامی طالبان کمانڈر نیک محمد ایک میزائل حملے کا نشانہ بن گئے تو اس وقت یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں تھی کہ موصوف ڈرون نامی اس جدید امریکی ہتھیار کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جس نے آگے جا کر بے شمار دیگر کمانڈروں کا بھی شکار کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق 2004ء سے سال 2006ء کے اواخر تک عام لوگ تو ایک طرف ہمارے اعلیٰ فوجی حکام اور حکومتی عہدیداران کو بھی ڈرون کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں تھیں۔ 2006ء کے اواخر میں جب باجوڑ ایجنسی کے ایک مدرسے کو بدترین حملے کا نشانہ بنایا گیا تب جا کر ڈرون کے بارے میں تفصیلات آنا شروع ہو گئیں۔ ابتدا میں باجوڑ کے مذکورہ حملے کی ذمہ داری پاکستانی فورسز نے لی ہوئی تھی اور اس کا باقاعدہ کریڈٹ بھی لیا تھا تاہم جب درجنوں بچوں(طلبا)کی ہلاکت کی تفصیلات اور عوامی مزاحمت سامنے آ گئی تو ہماری فورسز پیچھے ہٹ گئیں۔ تبھی معلوم ہوا کہ ڈرون اس سے قبل بھی متعدد کارروائیاں کرتا آیا ہے اور ہماری فورسز خصوصاً ائیر فورس ان کا کریڈٹ لیتی رہی ہے۔ سال 2007ء کے دوران جب بیت اللہ محسود کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو ڈرون حملوں کی تعدادمیں اضافہ ہونے لگا کیونکہ وزیرستان کی دونوں ایجنسیاں حکومت پاکستان کی رٹ اور اختیار سے بالکل نکل گئی تھیں جبکہ ان علاقوں میں وہ غیر ملکی عسکریت پسند بھی بڑی تعداد میں اکٹھے ہو گئے تھے جو کہ نہ صرف یہ کہ افغانستان میں جا کر کارروائیاں کر رہے تھے بلکہ وہ پاکستان اور امریکہ کو بھی مطلوب تھے۔ ڈرون نے انہی لوگوں کا پیچھا کرنا شروع کیا۔
سال 2011ء تک گرائے گئے ڈرون حملوں کا 80 فیصد نشانہ جنوبی وزیرستان بنا رہا تاہم 2011ء کے بعد شمالی وزیرستان اسی تناسب سے ڈرون حملوں کا نشانہ بننے لگا اور یہی وجہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں عام جہادیوں کے علاوہ اہم ترین غیر ملکی کمانڈر بھی نشانہ بننے لگے۔ ان میں القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سبھی کے اعلیٰ کمانڈر شامل رہے۔ ایک معتبر رپورٹ کے مطابق ڈرون نے جن کمانڈروں کو نشانہ بنایا ان میں القاعدہ کے52افراد بھی شامل ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے چار ٹاپ کمانڈرز اور امیر بیت اللہ محسود، قاری حسین اور حکیم اللہ محسود بھی ڈرون ہی کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔
مشہور زمانہ حقانی نیٹ ورک کے ارکان اور کمانڈروں کی ڈرون کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں۔ ان میں گروپ کے سربراہ جلال الدین حقانی کے دو صاحبزادے اور دوسرے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
قطع نظر اس بات کی کہ ڈرون حملے پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے ذمرے میں آتے ہیں اور ان کے باعث عام لوگ بھی نشانہ بنتے آئے ہیں اس تلخ حقیقت کو زمینی حقائق کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سال 2004ء کے بعد پاکستان کے اندر جتنے بھی اہم ترین جنگجو کمانڈر مارے گئے وہ ڈرون ہی نے نشانہ بنائے اور ان میں گڈ طالبان کے علاوہ بیڈ طالبان کی بڑی تعداد میں شامل رہی ہے۔ یہی وہ نکتہ اور سبب ہے جس کے باعث پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ڈرون کے خلاف کھل کر سٹینڈ نہیں لے رہی اور اہم ترین، مطلوب کمانڈروں کی ہلاکتوں کے باعث پاکستان کی حکومت اور سیاسی، مذہبی قوتوں کی مزاحمت بھی دلائل اور واقعات کی دھول میں چُھپ جاتی ہے۔
جب بھی ہمارے حکومتی عہدیداران یا سفارت کار ڈرون کا ایشو امریکی حکام کے سامنے اُٹھا دیتے ہیں دوسری طرف ان کے ہاتھ میں وہ فہرست تھما دی جاتی ہے جس میں مارنے والے کمانڈروں کے نام درج ہوتے ہیں اور تبھی ہمارا احتجاج دم توڑ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہمارے حکام کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ فاٹا میں خود ایکشن لے رہے ہوتے تو ہمیں ڈرون چلانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
مقبول عام تجزیوں کے برعکس ایسے حلقوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو کہ ڈرون حملوں کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ ان کے باعث اہم ترین جنگی کمانڈر نشانہ بنتے آئے ہیں اور طالبان اور ان کے اتحادیوں کے لیے کسی ایک جگہ پر اکٹھا ہونا یا کھل کر نقل و حرکت کرنا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ ملک کی مقبول جماعتیں پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی اور پی ایم اے کھلے عام یا بین السطور میں ڈرون حملوں کی حمایت کرتی آئی ہیں جبکہ بعض قبائلی تنظیمیں بھی اس کی حامی ہیں۔ طالبان اس لیے ڈرون کی مسلسل مخالفت نہیں کر رہے کہ ان کو پاکستان کی خود مختاری کی کوئی فکر ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ وہ جانی نقصان ہے جو کہ وہ اپنے کمانڈروں کی ہلاکتوں کے باعث اُٹھا چکے ہیں۔
رہی بات عام لوگوں کی ہلاکتوں کی تو اس پر بھی دو سے زائد رائے موجود ہیں۔ وزیرستان کے ایک سابق جی او سی آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ عام لوگوں کی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ طالبان ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ رہی ہے۔ سال 2011ء کے دوران سابق ائیر چیف راؤ قمر سلیمان نے آن دی ریکارڈ انکشاف کیا تھا کہ صرف ائیر فورس کے ذریعے 5300 بار فاٹا کے مختلف علاقوں میں موجود طالبان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جن کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ لازمی بات ہے کہ ان ائیر فورس کے ان حملوں کے دوران بھی بے شمار عام اور معصوم لوگ مارے جا چکے ہوں گے اور ان حملوں نے طالبان کو بھی نقصان پہنچایا ہو گا تاہم ان حملوں میں کوئی ایک بھی ٹاپ کمانڈر نشانہ نہیں بنا۔ اس کے برعکس ڈرون کے درست معلومات اور نشانہ بنانے کی صلاحیت نے طالبان اور القاعدہ کو ایسے بے شمار کمانڈروں سے محروم کر دیا جو کہ ان کا اثاثہ تھے اور ان کی ہلاکتوں نے ان کو نظریاتی اور تنظیمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یوں ڈرون ان کے لیے خوف کا نشانہ بن گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈرون حملوں کا آغاز سال2004ء میں اس وقت ہوا تھا جب صوبہ پختونخوا میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی پر مشتمل ایم ایم اے کی حکومت تھی اور مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے تاہم ان جماعتوں نے آج کی طرح اس وقت کوئی مزاحمت نہیں دکھائی۔ عین اسی طرح نیٹو سپلائی بھی کسی رکاوٹ کے بغیر ایم ایم اے کی حکومت کے دوران جاری رہی۔ عجب تماشا یہ بھی ہے کہ موجودہ سینئر صوبائی وزیر سراج الحق اس دور کے اختتام کے قریب ڈرون ہی کا بہانہ بنا کر مستعفی ہو چکے تھے۔ حال ہی میں ان کے امیر سید منور حسن نے کراچی میں اینٹی ڈرون ریلی کی قیادت کی جبکہ لیاقت بلوچ نے پی ٹی آئی کی پشاور ریلی سے پرجوش خطاب کیا تاہم سینئر وزیر سراج الحق، دوسرے وزرا اور ممبران اسمبلی پشاور کی ریلی میں شریک بھی نہ ہو سکے۔ اس دوغلے پن نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے تاہم مذکورہ رہنماؤں کے پاس کوئی ٹھوس وضاحت یا جواب نہیں ہے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پشاور کی ریلی میں جوش خطابت کا ریکارڈ توڑنے والے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ماضی میں ڈرون حملوں کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں اور بطور وزیر خارجہ بھی ان کے کئی بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں تاہم اب وہ محض اس وجہ سے اس کو قومی خود مختاری کے خلاف ظالمانہ اقدام قرار دے رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہیں۔
پی ٹی آئی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند جب مشرف دور میں کابل میں پاکستان کے سفیر تھے تو وہ وار آن ٹیرر کے نہ صرف زبردست داعی تھے بلکہ انہوں نے بھی ڈرون کو انتہائی سود مند قرار دے دیا تھا۔ موصوف آج کل فاٹا کے معاملات کے لیے عمران خان کے غیر اعلانیہ مشیر ہیں۔
پی ٹی آئی میں ایسے لیڈروں اور وزرا کی کوئی کمی نہیں جب وہ دوسری پارٹیوں میں تھے تو وہ امریکہ کے ساتھ اتحاد اور ڈرون حملوں کے زبردست حامی تھے تاہم اب وہ مخالفت میں سب سے آگے ہیں۔
پشاور کی ریلی سے صوبائی حکومت یا وزار کی علیحدگی اور غیر حاضری صوبے اور ملک کی تاریخ کا وہ انوکھا فیصلہ تھا جو کہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا اور اتحادی جماعتیں عوام کی نظروں میں مذاق بن کر رہ گئیں۔ عجب تماشا تو ریلی کے دوسرے روز دیکھنے کو ملا جب پشاور سمیت صوبے کے تین دوسرے اضلاع میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے ٹرکوں اور ٹریلرز کی تلاشیاں لینے کا کام اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیا۔ متعدد ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لگ یہ رہا ہے کہ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے پاس ڈرون ایشو سے نبٹنے کا کوئی قابل عمل پلان اور روڈ میپ سرے سے ہی نہیں۔
معتبر سیاسی مبصرین اور عوام کے اس سوال کا بھی صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کے پاس کوئی جواب نہیں کہ وہ زمینی ڈرون خود کش حملہ اور بمبارکی کھل کر مخالت کیوں نہیں کر رہے اور ان لوگوں کی موجودگی پر کیوں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ بغیر کسی دستاویز یا سبب کے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً فاٹا میں نہ صرف رہائش پذیر ہیں بلکہ وہ عالمی برادری اور خود پاکستان پر بھی حملہ آور ہیں۔
عمران خان کی اس دلیل اور تکرار میں بھی کوئی دم نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان میں جاری دہشت گردی کا بنیادی عنصر ہے۔ اس جنگ کا عملاً آغاز اس وقت ہوا تھا جب فال آف تورا بورہ کے بعد درجنوں کمانڈر اور ہزاروں مسلح جنگجو ایک منصوبے کے تحت فاٹا میں آ کر آباد ہو گئے۔ اُنہوں نے 1800قبائلی عمائدین کو ہلاک کیا۔ ہزاروں قبائلی یا تو مار دیے یا بے دخل کر دیے اور علاقے پر قابض ہو گئے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ لوگ 2002ء میں آئے۔ ڈرون 2004ء میں شروع ہوئے تاہم اس میں شدت 2007ء کے بعد واقع ہو گئی۔ 350 ڈرون حملوں کا ذکر بھی بجا ہے تاہم 345 خود کش حملوں اور اتنے ہی بم دھماکوں کے ذمہ داران پر خاموشی معنی خیز ہونے کے علاوہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر عام لوگوں کے علاوہ فورسز بھی بہت معترض ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں بہت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ان تبدیلیوں میں صوبے کی حکومت کی برطرفی کا آپشن بھی موجود ہے کیونکہ باخبر حلقے ایک بڑے فوجی آپریشن کی خبر دینے لگے ہیں۔
سال 2011ء تک گرائے گئے ڈرون حملوں کا 80 فیصد نشانہ جنوبی وزیرستان بنا رہا تاہم 2011ء کے بعد شمالی وزیرستان اسی تناسب سے ڈرون حملوں کا نشانہ بننے لگا اور یہی وجہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں عام جہادیوں کے علاوہ اہم ترین غیر ملکی کمانڈر بھی نشانہ بننے لگے۔ ان میں القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سبھی کے اعلیٰ کمانڈر شامل رہے۔ ایک معتبر رپورٹ کے مطابق ڈرون نے جن کمانڈروں کو نشانہ بنایا ان میں القاعدہ کے52افراد بھی شامل ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے چار ٹاپ کمانڈرز اور امیر بیت اللہ محسود، قاری حسین اور حکیم اللہ محسود بھی ڈرون ہی کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔
مشہور زمانہ حقانی نیٹ ورک کے ارکان اور کمانڈروں کی ڈرون کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں۔ ان میں گروپ کے سربراہ جلال الدین حقانی کے دو صاحبزادے اور دوسرے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
قطع نظر اس بات کی کہ ڈرون حملے پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے ذمرے میں آتے ہیں اور ان کے باعث عام لوگ بھی نشانہ بنتے آئے ہیں اس تلخ حقیقت کو زمینی حقائق کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سال 2004ء کے بعد پاکستان کے اندر جتنے بھی اہم ترین جنگجو کمانڈر مارے گئے وہ ڈرون ہی نے نشانہ بنائے اور ان میں گڈ طالبان کے علاوہ بیڈ طالبان کی بڑی تعداد میں شامل رہی ہے۔ یہی وہ نکتہ اور سبب ہے جس کے باعث پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ڈرون کے خلاف کھل کر سٹینڈ نہیں لے رہی اور اہم ترین، مطلوب کمانڈروں کی ہلاکتوں کے باعث پاکستان کی حکومت اور سیاسی، مذہبی قوتوں کی مزاحمت بھی دلائل اور واقعات کی دھول میں چُھپ جاتی ہے۔
جب بھی ہمارے حکومتی عہدیداران یا سفارت کار ڈرون کا ایشو امریکی حکام کے سامنے اُٹھا دیتے ہیں دوسری طرف ان کے ہاتھ میں وہ فہرست تھما دی جاتی ہے جس میں مارنے والے کمانڈروں کے نام درج ہوتے ہیں اور تبھی ہمارا احتجاج دم توڑ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہمارے حکام کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ فاٹا میں خود ایکشن لے رہے ہوتے تو ہمیں ڈرون چلانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
مقبول عام تجزیوں کے برعکس ایسے حلقوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو کہ ڈرون حملوں کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ ان کے باعث اہم ترین جنگی کمانڈر نشانہ بنتے آئے ہیں اور طالبان اور ان کے اتحادیوں کے لیے کسی ایک جگہ پر اکٹھا ہونا یا کھل کر نقل و حرکت کرنا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ ملک کی مقبول جماعتیں پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی اور پی ایم اے کھلے عام یا بین السطور میں ڈرون حملوں کی حمایت کرتی آئی ہیں جبکہ بعض قبائلی تنظیمیں بھی اس کی حامی ہیں۔ طالبان اس لیے ڈرون کی مسلسل مخالفت نہیں کر رہے کہ ان کو پاکستان کی خود مختاری کی کوئی فکر ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ وہ جانی نقصان ہے جو کہ وہ اپنے کمانڈروں کی ہلاکتوں کے باعث اُٹھا چکے ہیں۔
رہی بات عام لوگوں کی ہلاکتوں کی تو اس پر بھی دو سے زائد رائے موجود ہیں۔ وزیرستان کے ایک سابق جی او سی آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ عام لوگوں کی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ طالبان ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ رہی ہے۔ سال 2011ء کے دوران سابق ائیر چیف راؤ قمر سلیمان نے آن دی ریکارڈ انکشاف کیا تھا کہ صرف ائیر فورس کے ذریعے 5300 بار فاٹا کے مختلف علاقوں میں موجود طالبان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جن کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ لازمی بات ہے کہ ان ائیر فورس کے ان حملوں کے دوران بھی بے شمار عام اور معصوم لوگ مارے جا چکے ہوں گے اور ان حملوں نے طالبان کو بھی نقصان پہنچایا ہو گا تاہم ان حملوں میں کوئی ایک بھی ٹاپ کمانڈر نشانہ نہیں بنا۔ اس کے برعکس ڈرون کے درست معلومات اور نشانہ بنانے کی صلاحیت نے طالبان اور القاعدہ کو ایسے بے شمار کمانڈروں سے محروم کر دیا جو کہ ان کا اثاثہ تھے اور ان کی ہلاکتوں نے ان کو نظریاتی اور تنظیمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یوں ڈرون ان کے لیے خوف کا نشانہ بن گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈرون حملوں کا آغاز سال2004ء میں اس وقت ہوا تھا جب صوبہ پختونخوا میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی پر مشتمل ایم ایم اے کی حکومت تھی اور مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے تاہم ان جماعتوں نے آج کی طرح اس وقت کوئی مزاحمت نہیں دکھائی۔ عین اسی طرح نیٹو سپلائی بھی کسی رکاوٹ کے بغیر ایم ایم اے کی حکومت کے دوران جاری رہی۔ عجب تماشا یہ بھی ہے کہ موجودہ سینئر صوبائی وزیر سراج الحق اس دور کے اختتام کے قریب ڈرون ہی کا بہانہ بنا کر مستعفی ہو چکے تھے۔ حال ہی میں ان کے امیر سید منور حسن نے کراچی میں اینٹی ڈرون ریلی کی قیادت کی جبکہ لیاقت بلوچ نے پی ٹی آئی کی پشاور ریلی سے پرجوش خطاب کیا تاہم سینئر وزیر سراج الحق، دوسرے وزرا اور ممبران اسمبلی پشاور کی ریلی میں شریک بھی نہ ہو سکے۔ اس دوغلے پن نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے تاہم مذکورہ رہنماؤں کے پاس کوئی ٹھوس وضاحت یا جواب نہیں ہے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پشاور کی ریلی میں جوش خطابت کا ریکارڈ توڑنے والے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ماضی میں ڈرون حملوں کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں اور بطور وزیر خارجہ بھی ان کے کئی بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں تاہم اب وہ محض اس وجہ سے اس کو قومی خود مختاری کے خلاف ظالمانہ اقدام قرار دے رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہیں۔
پی ٹی آئی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند جب مشرف دور میں کابل میں پاکستان کے سفیر تھے تو وہ وار آن ٹیرر کے نہ صرف زبردست داعی تھے بلکہ انہوں نے بھی ڈرون کو انتہائی سود مند قرار دے دیا تھا۔ موصوف آج کل فاٹا کے معاملات کے لیے عمران خان کے غیر اعلانیہ مشیر ہیں۔
پی ٹی آئی میں ایسے لیڈروں اور وزرا کی کوئی کمی نہیں جب وہ دوسری پارٹیوں میں تھے تو وہ امریکہ کے ساتھ اتحاد اور ڈرون حملوں کے زبردست حامی تھے تاہم اب وہ مخالفت میں سب سے آگے ہیں۔
پشاور کی ریلی سے صوبائی حکومت یا وزار کی علیحدگی اور غیر حاضری صوبے اور ملک کی تاریخ کا وہ انوکھا فیصلہ تھا جو کہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا اور اتحادی جماعتیں عوام کی نظروں میں مذاق بن کر رہ گئیں۔ عجب تماشا تو ریلی کے دوسرے روز دیکھنے کو ملا جب پشاور سمیت صوبے کے تین دوسرے اضلاع میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے ٹرکوں اور ٹریلرز کی تلاشیاں لینے کا کام اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیا۔ متعدد ڈرائیوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لگ یہ رہا ہے کہ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے پاس ڈرون ایشو سے نبٹنے کا کوئی قابل عمل پلان اور روڈ میپ سرے سے ہی نہیں۔
معتبر سیاسی مبصرین اور عوام کے اس سوال کا بھی صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کے پاس کوئی جواب نہیں کہ وہ زمینی ڈرون خود کش حملہ اور بمبارکی کھل کر مخالت کیوں نہیں کر رہے اور ان لوگوں کی موجودگی پر کیوں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ بغیر کسی دستاویز یا سبب کے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً فاٹا میں نہ صرف رہائش پذیر ہیں بلکہ وہ عالمی برادری اور خود پاکستان پر بھی حملہ آور ہیں۔
عمران خان کی اس دلیل اور تکرار میں بھی کوئی دم نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان میں جاری دہشت گردی کا بنیادی عنصر ہے۔ اس جنگ کا عملاً آغاز اس وقت ہوا تھا جب فال آف تورا بورہ کے بعد درجنوں کمانڈر اور ہزاروں مسلح جنگجو ایک منصوبے کے تحت فاٹا میں آ کر آباد ہو گئے۔ اُنہوں نے 1800قبائلی عمائدین کو ہلاک کیا۔ ہزاروں قبائلی یا تو مار دیے یا بے دخل کر دیے اور علاقے پر قابض ہو گئے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ لوگ 2002ء میں آئے۔ ڈرون 2004ء میں شروع ہوئے تاہم اس میں شدت 2007ء کے بعد واقع ہو گئی۔ 350 ڈرون حملوں کا ذکر بھی بجا ہے تاہم 345 خود کش حملوں اور اتنے ہی بم دھماکوں کے ذمہ داران پر خاموشی معنی خیز ہونے کے علاوہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر عام لوگوں کے علاوہ فورسز بھی بہت معترض ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں بہت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ان تبدیلیوں میں صوبے کی حکومت کی برطرفی کا آپشن بھی موجود ہے کیونکہ باخبر حلقے ایک بڑے فوجی آپریشن کی خبر دینے لگے ہیں۔
No comments:
Post a Comment