Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: Top 5 Moentizing platforms
Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: Top 5 Moentizing platforms: 1. Google Adsense Best framework in web based advertisements users interest based ads are displayed Multiple ad formats Minimum payout...
Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: A JOURNEY TO GILGIT BALTISTAN
Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: A JOURNEY TO GILGIT BALTISTAN: A journey to Remember (Gilgit Baltistan... by northernareasofpakistan
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
crown prince,
deputy crown prince,
muhammad bin salman,
nuclear agreement,
Putin,
Russia,
Saudi,
Saudi Arabia
زندگی میں کامیابی کے لئے ایک اچھا اداکار ہونا ضروری ہے
اس زندگی میں کامیابی کے لئے ایک اچھا اداکار ہونا ضروری ہے....
آپ کو ہر جگہ ، ہر شعبے میں اداکاری کرنی پڑتی ہے...
اداکاری...... دوسرے لفظوں میں ریاکاری ...منافقت...
آپ کو وہ نظر آنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے جو آپ ہیں نہیں...
اندر کچھ....باہر کچھ...
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
#Karachi,
actor,
hanif samana,
Karachi,
Lahore,
Pakistan,
urdu,
Urdu columns
زرداری صاحب اور ارب پتی اداکار نواز شریف
Bilal Urrashid
زرداری صاحب نے ارب پتی اداکار نواز شریف کو کہا ہے ۔ ان کو غصہ ہے کہ نواز شریف رینجرز کو روکتے کیوں نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے مجرموں پر ہاتھ نہ ڈالیں ۔ دوسری طرف آرمی نے پہلے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر ناءن زیرو پر جب چھاپہ مارا تھا تو اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے بعد دوسروں کی باری آءے گی ۔ کیونکہ کراچی کی ستر فیصد صوباءی اور قومی نشستیں اور عسکری قوت ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھی۔
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
#ImranKhan,
Abbotabad,
Altaf hussain,
Bahauddin zakria University,
Balochistan,
Bangladesh,
Maryam Nawaz,
Nawaz Sharif,
Peshawar,
PPP,
shireen mazari,
Shireen rahman,
ZARDARI
ہم سارا دن کولن شہر میں گھومتے رہے، شام کے وقت ریستوران میں پہنچ گئے، وہ ایک ترکش ریستوران تھا اور مسلمانوں کے ریستورانوں کی طرح وہاں ہر قسم کی خوراک کی فراوانی تھی، دروازے کے باہر شوارمے کی گرل تھی، گرل پر بیف، مٹن اور چکن کی پھرکیاں گھوم رہی تھیں،
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
BBC Urdu,
food for the needy,
hotel,
Javed Chaudhry,
Pakistan,
Pakistani newspapers,
save food,
Urdu Column,
Urdu columns,
urdu newspapers,
Urdu writers,
zero point
عبدالقادر حسن
معلوم نہیں اس رواں دواں زندگی میں کیا کچھ دیکھنا پڑے گا اور کتنی ہی انہونی باتوں سے واسطہ پڑے گا لیکن کئی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں جن کا کسی خواب و خیال میں بھی تصور نہ تھا۔کون سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک اکاؤنٹنٹ جو کسی حکومتی رشتہ داری کی وجہ سے وفاقی وزیر بن جائے گا ہم اخبار نویسوں کو بھری محفل میں بے عزت کرے گا اور ہم صحافی اس وزیر کی جھڑک سن کر اس بھری محفل میں اپنی بے عزتی پی جائیں گے اور بدمزا نہیں ہوں گے۔
ایسی بے عزتی جو صحافت کی تاریخ میں پہلی بار کی گئی ہے اور جس کا صحافتی زندگی میں کوئی تصور تک نہیں تھا۔ ہوا یہ کہ بجٹ کے بعد حسب روایت وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس بلائی کہ اس میں وہ بجٹ پر اعتراضات کا جواب دے سکیں
راہداری منصوبہ اور ممکنہ بے راہ رویاں
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ظہیر اختر بیدری
جو لوگ ہمارے نظام معیشت اور نظام سیاست کی خرابیوں کو سمجھتے ہیں، وہ 68 سال سے اس نظام میں تبدیلی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایسے لوگ اس وقت تک جدوجہد کرتے رہیں گے جب تک یہ استحصالی نظام تبدیل نہ ہوجائے، بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدہ مخلص اور نظریاتی جماعتوں کا فقدان ہے۔لہٰذانظام کی تبدیلی کی باتیں اندھیرے میں کالی بلی تلاش کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ اعتراض یا تنقید غلط نہیں لیکن جو لوگ نظام بدلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان کے پیش نظر عوام کی خواہشیں اور ضرورتیں ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں جہاں بھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کامیاب ہوئی ہے، وہ آسان رہی نہ اس میں کوئی شارٹ کٹ آیا ہے۔ لہٰذا یہ جدوجہد بہت طویل اور صبر آزما ہوتی ہے، عوام طویل المدتی جدوجہد سے کتراتے ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقات عوام کو چھوٹی چھوٹی مراعات دے کر یا بڑے بڑے دعوے کرکے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظام کی تبدیلی کی اس لامتناہی جدوجہد میں عوام کو ان ممکنہ مراعات سے محروم کردینا چاہیے جو حکمران طبقات اپنی بقا کے جواز کے طور پر عوام کو مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
یہ سوال ہمارے ذہن میں اس لیے آیا کہ پچھلے دنوں چین سے جو اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا ہے اگر اس معاہدے پر ایمانداری سے عمل کیا جائے اور اس میں کرپشن نہ ہونے دی جائے تو بلاشبہ عوام کو کچھ قیمتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ فوائد کا بڑا اور اصل حصہ تو معاہدے کے فریقوں اور ان کے طبقاتی ساتھیوں کو ہوتا ہے عوام کے حصے میں جو کچھ آتا ہے وہ ہے روزگار کے مواقعے۔ اگرچہ بے روزگاروں کی بھرمار کی وجہ سے روزگار بھی مقابلے کا شکار رہتا ہے اور بے روزگار کم اجرتوں پر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی صورت بے روزگاری میں کمی ہوتی ہے ہمارے محترم حکمران فرماتے ہیں کہ اس قسم کے بڑے منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ہر قدم پر ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ چین نے اپنی انقلابی روایات اور معاشی فلسفوں کو ترک کرکے ’سرمایہ دارانہ راہداری‘ اختیار کرلی ہے اور اس راہداری میں قدم قدم پر قزاقی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو بڑے منصوبوں میں ہونے والی اربوں کھربوں کی کرپشن کو روکے اور ایسے قومی اہمیت کے منصوبوں کو مانیٹر کرے ۔
ہماری عدلیہ نے کوشش کی لیکن کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں میں عدلیہ فعال ہونے کے باوجود کرپشن کا خاتمہ نہ ہوسکا۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک طاقتور ادارہ ہے اگر وہ چاہے تو کرپشن کی ناک میں نکیل ڈال سکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ہمارے یکطرفہ طریقہ انتخاب کی وجہ سے عوام کے نمایندوں پر مشتمل نہیں رہا بلکہ اس کی ہیئت ترکیبی اشرافیائی مفادات کی ترجمان ہے اور عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچ کر خواص کے نمایندے بن جاتے ہیں اور عوام اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اقتصادی راہداری کا یہ 46 ارب ڈالر کا منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں سرگرم ہیں یہ الزام یا خدشات اس لیے غلط نہیں ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی مفادات جہاں باپ کو بیٹے، بیٹے کو باپ، بھائی کو بھائی، بیوی کو شوہر کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں وہاں پڑوسیوں کو مخالف بنا دیتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن چونکہ اس معاہدے کے ایک بڑے اور بااثر ترین فریق (چین) کے مفادات اس سے وابستہ ہیں لہٰذا بیرونی مداخلت کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔
ہاں اندر سے اگر اس کی مخالفت کالا باغ ڈیم طرز کی مخالفت بن جائے تو یہ معاہدہ واقعی مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں کہ اس کا روٹ تبدیل کرکے صرف ایک صوبے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ شکایت ویسی ہی ہے جیسے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے ۔ اس کا حل زبانی تردید نہیں ہے بلکہ روٹ کے حوالے سے تمام حقائق میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ عوام اس کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے جائز فیصلہ کرسکیں ورنہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جائے گا۔
چونکہ منصوبہ اپنے حجم اور افادیت کے حوالے سے بہت بڑا ہے لہٰذا اس میں ہر حوالے سے شفافیت اور انصاف کو اولیت دی جانی چاہیے۔ ہماری سیاست پر چونکہ ایلیٹ اور اس کے چیلوں کا قبضہ ہے لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوگی کہ اس منصوبے کے ثمرات سے وہ بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ہماری سیاسی روایات کے مطابق جب تک ’’تمام پارٹنرز کو منصفانہ حصہ‘‘ نہیں مل جاتا پھڈا اور پنگا جاری رہے گا اور یہ سب کچھ صوبوں اور عوام کے حقوق کے نام پر ہوگا۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا منطقی طور پر اس منصوبے سے بلوچستان کے غریب عوام کو سب سے زیادہ فائدہ ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے اس صوبے پر ہمیشہ سرداروں کا غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام ہمیشہ معاشی اور سیاسی طور پر بھی خانہ بدوش رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کی طرح اس صوبے میں بھی عوام کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم رہا ہے۔ بلوچستان کی نوجوان نسل جو ہمیشہ سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کی شکار رہی ہے اور مایوسی کے عالم میں بغاوت تک پہنچی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ تاریک راہوں میں بھٹکنے کے بجائے اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر اپنی محرومیاں دور یا کم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ منصوبہ چاروں صوبوں کی یکساں افادیت کا حامل ہے اور طویل مدتی مفادات کا حامل ہے لہٰذا ہمارے ملک کی مخلص سنجیدہ اور عوام دوست طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس منصوبے کے ثمرات سے چاروں صوبوں کے عوام کو فائدہ حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس منصوبے کی مخالفت برائے مخالفت سے دست بردار ہوں اور کھل کر عوام کو بتائیں کہ اس منصوبے کا روٹ کیسے اور کہاں تبدیل کیا گیا ہے یا جا رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو واضح طور پر یہ بتایا جائے کہ روٹ کی مبینہ تبدیلی سے عوام کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چونکہ بے چارے عوام اپنی سیاسی اوقات کی وجہ سے کسی بھی منصوبے میں نہ فریق بن سکتے ہیں نہ اعتراض اٹھاسکتے ہیں اور ہمیشہ خواص عوام کے نام پر ہر منصوبے کے فریق بھی بن جاتے ہیں اور اپنے طبقاتی مفادات کے لیے اعتراض بھی اٹھاتے ہیں اور یہ منصوبہ طویل مدتی مفادات کا ہے لہٰذا وہ سارے عوام دوست حلقے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ فکر سے ہو اس منصوبے کو عوام کے مفادات کے مطابق بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں خاص طور پر میڈیا اس مسئلے پر عوام کے مفادات کی ترجمانی کرے۔
اردوان کے ساتھ ترکی بہ ترکی ؟ وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
یہ تو آپ نے سن پڑھ ہی لیا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے شاندار تیرہ برس کے گڈ گورننس ریکارڈ کے باوجود ترک ووٹروں نے ان کا یہ خواب توڑ دیا کہ ترکی کو پارلیمانی نظام کے بجائے ایک طاقتور صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ساڑھے پانچ سو نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی میں تین سو تیس نشستوں کی دو تہائی اکثریت درکار تھی۔
لیکن ہوا یہ کہ دو روز قبل ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سادہ اکثریت ( دو سو چہتر ) سے بھی محروم ہو گئی۔لگ یوں رہا ہے کہ بیس برس بعد ترکی میں کمزور مخلوط حکومتوں کا زمانہ لوٹ رہا ہے کہ جس سے تنگ آکر عوام نے لگاتار تین پارلیمانی انتخابات (دو ہزار دو ، سات ، گیارہ ) میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو مضبوط حکومت سازی کے لیے منتخب کیا۔تو کیا عوام ناشکرے ہوتے ہیں یا پھر حکمرانی ہی میں یہ وصف ہے کہ وہ سیدھے چلتے چلتے طوالت کے باعث غیر محسوس انداز میں ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہے۔
رجب طییب اردوان منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی موروثی سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔وہ تو ایک معمولی ترک کوسٹ گارڈکے صاحبزادے ہیں۔گھریلو اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اردوان بھی نوعمری میں سڑک پر سوڈے کی بوتلیں اور خشخشی مرمرے بیچتے رہے۔انھوں نے نوجوانی میں پہلوانی کی ، تھیٹر ڈرامے لکھنے کا تجربہ کیا ، نیم پروفیشنل فٹ بالر رہے۔ایم بی اے بھی کیا۔
اسلام پسند نجم الدین اربکان کی سیاست سے انسیت رہی اور انیس سو چورانوے میں اربکان کی ویلفئیر پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے مئیر کی چار سالہ مدت کا انتخاب بھی جیت گئے اور پھر بطور مئیر کارکردگی ان کے شاندار سیاسی عروج کی بنیاد بنی۔مئیر اردوان نے تین برس میں ہی دو ارب ڈالر کی مقروض بلدیہ کو گرداب سے نکالنے کے لیے کرپشن کنٹرول کی اور استنبول میں چار ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔ان منصوبوں سے شہر میں پانی کی قلت ختم ہوئی ، پبلک ٹرانسپورٹ میں پٹرول کے بجائے گیس کے استعمال سے فضائی آلودگی نصف رہ گئی۔
پچاس کے لگ بھگ نئے پل بنے ، سڑکیں اور چوک چوڑے ہوئے۔ تجاوزات کے خلاف سخت قوانین نافذ ہوئے۔ یوں استنبول کے ٹریفک مسائل قابو میں آگئے۔اس سے پہلے کہ اردوان کی چارسالہ مدت ختم ہوتی۔ فوج کے دباؤ پر اربکان حکومت ختم ہوگئی اور ویلفئیر پارٹی کو آئینی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔رجب طیب اردوان نے ردِ عمل میں ایک متنازعہ نظم لکھی جس میں گنبد ، مینار جیسے استعارے استعمال ہوئے۔چنانچہ مئیر کے عہدے سے برطرف ہوئے ، مقدمہ چلا ، دس ماہ قید کی سزا ہوئی مگر عملاً چار ماہ جیل میں رہے۔
اردوان اور ان کے ساتھیوں نے ویلفئر پارٹی کی سیاسی غلطیوں اور کمزوریاں کا ناقدانہ جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فوج کے گہرے سیاسی اثر و نفوذ کے ہوتے کسی مہم جوئی کے بجائے مرحلہ وار تبدیلی ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ چنانچہ اردوان ، عبداللہ گل اور دیگر ساتھیوں نے سن دو ہزار ایک میں کالعدم ویلفئیر پارٹی کی جگہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور استنبول کی بلدیاتی کارکردگی کو قابلِ عمل ملک گیر سیاسی ماڈل کے طور پر پیش کیا۔
دو ہزار دو کے پارلیمانی انتخابات میں اقتصادی کساد بازاری اور کمزور مخلوط حکومتوں کے ستائے ووٹروں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔عبداللہ گل وزیرِ اعظم بنے اور جب ایک برس بعد رجب طیب اردوان کی عدالتی بریت ہوئی تو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے وہ رکنِ اسمبلی اور پھر وزیرِ اعظم بنے۔ عبداللہ گل صدرِ مملکت ہو گئے۔
اگلے دس برس میں ترکی کی قومی آمدنی میں چونسٹھ فیصد اور فی کس آمدنی میں تینتالیس فیصد اضافہ ہوا اور ترکی کا شمار تیز رفتار ترقی کرنے والے ٹاپ ٹین ترقی پذیر ممالک میں ہونے لگا۔ قومی کرنسی لیرا مستحکم ہوئی اور افراطِ زر کی شرح بتیس سے کم ہو کر نو فیصد پر آ گئی۔دو ہزار دو میں ترکی آئی ایم ایف کا ساڑھے تئیس ارب ڈالر کا مقروض تھا۔دو ہزار بارہ تک یہ قرضہ اتار دیا گیا۔
تعلیمی بجٹ دو ہزار دو میں سات ارب لیرا تھا جو دو ہزار گیارہ میں بڑھ کے چونتیس ارب لیرا تک پہنچ گیا۔ پہلی بار تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے آگے نکل گیا۔یونیورسٹیوں کی تعداد دس برس کے دوران اٹھانوے سے بڑھ کے ایک سو چھیاسی ہوگئی۔لازمی اور مفت تعلیم کا دورانیہ آٹھ برس سے بڑھا کر بارہ برس کر دیا گیا۔لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ انرول کرنے کو ترجیح دی گئی۔اٹھارہ برس سے کم عمر کی آبادی کے لیے صحت کی سرکاری سہولتیں مفت قرار دی گئیں۔( گویا آدھی آبادی تحفظِ صحت کی چھتری تلے آ گئی)۔
انفراا سٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری ہوئی۔انیس سو تئیس سے دو ہزار دو تک نواسی برس میں ترکی میں چھ ہزار کلومیٹر پختہ شاہراہیں بنیں لیکن دو ہزار دو کے بعد سے اگلے دس برس کے دوران تیرہ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہائی ویز تعمیر ہوئیں۔ہائی اسپیڈ ٹرین سروس شروع کی گئی۔آبنائے باسفورس کے آر پار دنیا کی سب سے گہری سمندری ریلوے سرنگ تعمیر ہوئی۔ ایئرپورٹوں کی تعداد چھبیس سے پچاس ہوگئی۔
عدالتی اصلاحات کی کوششیں بھی ہوئیں۔سزائے موت ختم کردی گئی۔ دو ہزار نو میں بغاوت کے الزام میں تین سو کے لگ بھگ اعلٰی فوجی افسروں کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے واضح پیغام دیا گیا کہ فوج سویلین قوانین سے بالا مقدس گائے نہیں۔کرد اقلیت سے ترک ریاست کی پچیس سالہ جنگ ختم ہوئی۔اس جنگ میں چالیس ہزار جانیں تلف ہوئی تھیں۔اردوان حکومت نے کرد زبان کو قومی درجہ دے کر لسانی حقوق بحال کردیے۔کرد علاقوں کی ترقی کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا۔
ترکی نے خارجہ امور میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے باوجود فلسطینیوں کی کھل کے حمائیت کی ، مصر میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والی فوجی حکومت کے لتے لیے۔سعودی ایرانی علاقائی مناقشے میں اپنا وزن سعودی کیمپ میں ڈالا مگر ترکی کو ایک مسلم جمہوری رول ماڈل کے طور پر مشرقِ وسطی میں بطور مثالیہ پیش کرنے کی بھی بھرپور کوشش جاری رہی۔
تو پھر ایسا کیا ہوگیا کہ دو روز قبل پارلیمانی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تیرہ برس میں پہلی بار حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی۔
بات یہ ہے کہ پچھلے تین برس میںترکی میں آزادیِ اظہار پر سختیاں بڑھ گئی ہیں۔دو ہزار دو میں ترکی دنیا کے ایک سو انہتر ممالک کے پریس فریڈم انڈیکس میں سویں نمبر پر تھا، آج ایک سو چونوے نمبر پر ہے۔حکومت نے ویب سائٹس بند کرنے اور کھولنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا ہے۔ سرکار مخالف مظاہروں کو سختی سے کچلنے کا رجہان بھی بڑھا ہے۔سرکردہ مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے بھی بڑھتی ہوئی بے اعتدالیوں کے سبب اردوان حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بیوروکریسی میں گولن کا اچھا خاصا اثرونفوذ ہے۔چنانچہ بہت سے اسکینڈلز چار دیواری سے باہر آئے اور اردوان حکومت کی شہرت کو بٹہ لگا۔
انفرااسٹرکچر کی ترقی کے نام پربے تحاشا تعمیراتی کمرشلائزیشن کے سبب ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان پر شہری نوجوان طبقہ بالخصوص نالاں ہے۔کروڑوں ڈالر کے کرپشن اسکینڈلز نے گڈ گورننس کی چیمپئن اردوان حکومت کے کئی وزرا ، ان کی اولادوں اور اعلی افسران کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔اس ضمن میں متعدد گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔اقتصادی ترقی کے باوجود بے روزگاری کی شرح دس فیصد سے بڑھ کے بارہ فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔
اور اس پر یہ خبریں بھی سونے پر سہاگہ کہ ماحولیاتی تحفظ یافتہ اتاترک نیشنل پارک میں ساڑھے تین سو ملین ڈالر کی لاگت سے صدر اردوان کے لیے ایک ہزار کمروں کا پچاس ایکڑ پہ پھیلا محل عدالتی امتناع کے باوجود مکمل کیا گیا اور اس محل میں سربراہانِ مملکت کا استقبال عثمانی دور کی وردیوں میں ملبوس سپاہی کرتے ہیں۔گویا صدر اردوان خود کو منتخب نمایندے کے بجائے عثمانی سلطان تصور کرتے ہیں۔تبھی تو وہ بااختیار وزارتِ عظمی چھوڑنے کے بعد جب گذشتہ برس صدر منتخب ہوئے تو اپنے لیے ایک کمزور وزیرِ اعظم پسند فرمایا۔
شام کی خانہ جنگی میں اردوان حکومت کی جانب سے شدت پسند دولتِ اسلامیہ کے بارے میں نرم روی برتنے کا بھی اندورون و بیرون پختہ تاثر ہے اور اس بابت شامی سرحد پر آباد ترک کردوں کو سب سے زیادہ مسائل اور شکایات ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اردوان میں یہ خو بھی آتی چلی گئی کہ وہ اپنی مخالفت یا ناکامی کے اندرونی اسباب تلاش کرنے کے بجائے اس کا ذمے دار امریکا اور اسرائیل سمیت بیرونی طاقتوں اور ان کے ترک ایجنٹوں ( حزبِ اختلاف ) کو ٹھہرانے لگے۔تو کیا ترک ووٹر بھی ملک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی صدر اردوان کی درخواست کو دھتا بتا کے بیرونی ایجنٹ ہو گئے ؟
کوئی بھی حکمراں جب تیرہ برس سے ’’جی سر ، واہ سر ، زبردست سر’’ مسلسل سنے گا تو وہ ’’ نو سر’’ ہضم کرنے کے قابل بھلا کہاں رہتا ہے ؟
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
BBC Urdu,
Pakistan,
Turkey,
Turkish elections
پاکستان میں ایپلی کیشن فیس کے نام پر بیروزگار نوجوانوں کا استحصال
پچھلے دس براہ سالوں سے پاکستان میں تقریباً تمام نوکریوں کے لئے درخواست کو ٥٠٠ سے لے کر٥٠٠٠ روپے تک فیس وصول کیا جاتا ہے . خیبر پختوانخواء کی حد تک تو بہت سے یونیورسٹیز اور گورنمنٹ ادارے پہلے ہے سے بھرتی کئے ہوئےآسامیوں پر بھرتی کا مطلوبہ عمل پورا کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں ، حالانکہ اس پوزیشن پر پہلےہی منظور نظر افراد کا انتخاب ہو چکا ہوتا ہے . اِس کے علاوہ ایک بیروزگار نوجوان کے جیب پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے . جب وہ ہر درخواست کے ساتھ پروسسنگ فیس کے نام پر ایک غنڈہ فیس دیتے ہیں . بہت سے اداروں نے ایپلی کیشن فیس کو با قاعدہ منافعےکا ذریعہ بنایا ہُوا ہے
اِس جدید دور میں جب کمپیوٹر کے بہت تیز اور خود کار طریقے سےبھرتی کا عمل مکمل کیا جا سکھاتا ہے ، تو پِھر اِس قسم واہیات ہتھکنڈوں کی کیا تک بنتی ہے .
پاکستان میں ہر سال این ٹی ایس کے چھتری تلے لاکھوں روپے کمائے جاتے ہیں . این ٹی ایس کو اگر یونیورسٹیزداخلے کے لئے استعمال کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس طرح صحیح طالبعلموں کا انتخاب کیا جاسکےگا. چہ جایکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی تضحیک کرے ،نوکریوں کے لیے اسکریوٹنی کے عمل کو سی ایس ایس یا پی سی ایس کے طرز پر با قاعدہ امتحان مرتب کرکے مکمل کرنا چاہیے . اسطرح ایک تو مطلوبہ معیاراور اہلیت کا امیدوار مل جاےگا بلکہ شفافیت بھی یقینی بنا دیا جاےگا.
.کیا جمہوریت کے دعوے دار اور نوجوانوں کے علمبردار کسی مرکزی یا صوبائی حکومت کو اِس کھلم کھلا استحصال اور ظلم کا احساس ہے ، جس میں این ٹی ایس جیسے نجی ادارے منافع بخش ادارے بن گئے ہیں ، کیا یہ غریب اور . بیروزگار نوجوانوں کے خون چوسنے کے مترادف نہیں. کیا کبھی کوئی غریب کے بچے کا بھی سوچے گا یا ہم سب کچھ دھاندلیوں کے شور اور میٹروز کے چکاچوند میں بہا لے جاینگے
Labels:travel, tourism, news, Pakistan
Imran Khan,
Jobs,
Kaptaan,
Nawaz Sharif,
NTS,
Pakistan,
PMLN,
PTI,
PTV
Subscribe to:
Posts (Atom)