Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: Top 5 Moentizing platforms

Yeh Peshawar Hai یہ پشاورھے: Top 5 Moentizing platforms: 1. Google Adsense Best framework in web based advertisements users interest based ads are displayed Multiple ad formats Minimum payout...
زندگی میں کامیابی کے لئے ایک اچھا اداکار ہونا ضروری ہے
اس زندگی میں کامیابی کے لئے ایک اچھا اداکار ہونا ضروری ہے....
آپ کو ہر جگہ ، ہر شعبے میں اداکاری کرنی پڑتی ہے...
اداکاری...... دوسرے لفظوں میں ریاکاری ...منافقت...
آپ کو وہ نظر آنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے جو آپ ہیں نہیں...
اندر کچھ....باہر کچھ...


زرداری صاحب نے ارب پتی اداکار نواز شریف کو کہا ہے ۔ ان کو غصہ ہے کہ نواز شریف رینجرز کو روکتے کیوں نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے مجرموں پر ہاتھ نہ ڈالیں ۔ دوسری طرف آرمی نے پہلے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر ناءن زیرو پر جب چھاپہ مارا تھا تو اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے بعد دوسروں کی باری آءے گی ۔ کیونکہ کراچی کی ستر فیصد صوباءی اور قومی نشستیں اور عسکری قوت ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھی۔

ہم سارا دن کولن شہر میں گھومتے رہے، شام کے وقت ریستوران میں پہنچ گئے، وہ ایک ترکش ریستوران تھا اور مسلمانوں کے ریستورانوں کی طرح وہاں ہر قسم کی خوراک کی فراوانی تھی، دروازے کے باہر شوارمے کی گرل تھی، گرل پر بیف، مٹن اور چکن کی پھرکیاں گھوم رہی تھیں،
 عبدالقادر حسن

معلوم نہیں اس رواں دواں زندگی میں کیا کچھ دیکھنا پڑے گا اور کتنی ہی انہونی باتوں سے واسطہ پڑے گا لیکن کئی ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں جن کا کسی خواب و خیال میں بھی تصور نہ تھا۔کون سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک اکاؤنٹنٹ جو کسی حکومتی رشتہ داری کی وجہ سے وفاقی وزیر بن جائے گا ہم اخبار نویسوں کو بھری محفل میں بے عزت کرے گا اور ہم صحافی اس وزیر کی جھڑک سن کر اس بھری محفل میں اپنی بے عزتی پی جائیں گے اور بدمزا نہیں ہوں گے۔
ایسی بے عزتی جو صحافت کی تاریخ میں پہلی بار کی گئی ہے اور جس کا صحافتی زندگی میں کوئی تصور تک نہیں تھا۔ ہوا یہ کہ بجٹ کے بعد حسب روایت وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس بلائی کہ اس میں وہ بجٹ پر اعتراضات کا جواب دے سکیں 

راہداری منصوبہ اور ممکنہ بے راہ رویاں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

 ظہیر اختر بیدری

جو لوگ ہمارے نظام معیشت اور نظام سیاست کی خرابیوں کو سمجھتے ہیں، وہ 68 سال سے اس نظام میں تبدیلی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایسے لوگ اس وقت تک جدوجہد کرتے رہیں گے جب تک یہ استحصالی نظام تبدیل نہ ہوجائے، بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدہ مخلص اور نظریاتی جماعتوں کا فقدان ہے۔لہٰذانظام کی تبدیلی کی باتیں اندھیرے میں کالی بلی تلاش کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ اعتراض یا تنقید غلط نہیں لیکن جو لوگ نظام بدلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان کے پیش نظر عوام کی خواہشیں اور ضرورتیں ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں جہاں بھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کامیاب ہوئی ہے، وہ آسان رہی نہ اس میں کوئی شارٹ کٹ آیا ہے۔ لہٰذا یہ جدوجہد بہت طویل اور صبر آزما ہوتی ہے، عوام طویل المدتی جدوجہد سے کتراتے ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقات عوام کو چھوٹی چھوٹی مراعات دے کر یا بڑے بڑے دعوے کرکے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظام کی تبدیلی کی اس لامتناہی جدوجہد میں عوام کو ان ممکنہ مراعات سے محروم کردینا چاہیے جو حکمران طبقات اپنی بقا کے جواز کے طور پر عوام کو مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
یہ سوال ہمارے ذہن میں اس لیے آیا کہ پچھلے دنوں چین سے جو اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا ہے اگر اس معاہدے پر ایمانداری سے عمل کیا جائے اور اس میں کرپشن نہ ہونے دی جائے تو بلاشبہ عوام کو کچھ قیمتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ فوائد کا بڑا اور اصل حصہ تو معاہدے کے فریقوں اور ان کے طبقاتی ساتھیوں کو ہوتا ہے عوام کے حصے میں جو کچھ آتا ہے وہ ہے روزگار کے مواقعے۔ اگرچہ بے روزگاروں کی بھرمار کی وجہ سے روزگار بھی مقابلے کا شکار رہتا ہے اور بے روزگار کم اجرتوں پر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی صورت بے روزگاری میں کمی ہوتی ہے ہمارے محترم حکمران فرماتے ہیں کہ اس قسم کے بڑے منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ہر قدم پر ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ چین نے اپنی انقلابی روایات اور معاشی فلسفوں کو ترک کرکے ’سرمایہ دارانہ راہداری‘ اختیار کرلی ہے اور اس راہداری میں قدم قدم پر قزاقی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ  موجود نہیں جو بڑے منصوبوں میں ہونے والی اربوں کھربوں کی کرپشن کو روکے اور ایسے قومی اہمیت کے منصوبوں کو مانیٹر کرے ۔
ہماری عدلیہ نے کوشش کی لیکن کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں میں عدلیہ فعال ہونے کے باوجود کرپشن کا خاتمہ نہ ہوسکا۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک طاقتور ادارہ ہے اگر وہ چاہے تو کرپشن کی ناک میں نکیل ڈال سکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ہمارے یکطرفہ طریقہ انتخاب کی وجہ سے عوام کے نمایندوں پر مشتمل نہیں رہا بلکہ اس کی ہیئت ترکیبی اشرافیائی مفادات کی ترجمان ہے اور عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچ کر خواص کے نمایندے بن جاتے ہیں اور عوام اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اقتصادی راہداری کا یہ 46 ارب ڈالر کا منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں سرگرم ہیں یہ الزام یا خدشات اس لیے غلط نہیں ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی مفادات جہاں باپ کو بیٹے، بیٹے کو باپ، بھائی کو بھائی، بیوی کو شوہر کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں وہاں پڑوسیوں کو مخالف بنا دیتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن چونکہ اس معاہدے کے ایک بڑے اور بااثر ترین فریق (چین) کے مفادات اس سے وابستہ ہیں لہٰذا بیرونی مداخلت کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔
ہاں اندر سے اگر اس کی مخالفت کالا باغ ڈیم طرز کی مخالفت بن جائے تو یہ معاہدہ واقعی مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں کہ اس کا روٹ تبدیل کرکے صرف ایک صوبے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ شکایت ویسی ہی ہے جیسے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے ۔ اس کا حل زبانی تردید نہیں ہے بلکہ روٹ کے حوالے سے تمام حقائق میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ عوام اس کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے جائز فیصلہ کرسکیں ورنہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جائے گا۔
چونکہ منصوبہ اپنے حجم اور افادیت کے حوالے سے بہت بڑا ہے لہٰذا اس میں ہر حوالے سے شفافیت اور انصاف کو اولیت دی جانی چاہیے۔ ہماری سیاست پر چونکہ ایلیٹ اور اس کے چیلوں کا قبضہ ہے لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوگی کہ اس منصوبے کے ثمرات سے وہ بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ہماری سیاسی روایات کے مطابق جب تک ’’تمام پارٹنرز کو منصفانہ حصہ‘‘ نہیں مل جاتا پھڈا اور پنگا جاری رہے گا اور یہ سب کچھ صوبوں اور عوام کے حقوق کے نام پر ہوگا۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا منطقی طور پر اس منصوبے سے بلوچستان کے غریب عوام کو سب سے زیادہ فائدہ ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے اس صوبے پر ہمیشہ سرداروں کا غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام ہمیشہ معاشی اور سیاسی طور پر بھی خانہ بدوش رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کی طرح اس صوبے میں بھی عوام کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم رہا ہے۔ بلوچستان کی نوجوان نسل جو ہمیشہ سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کی شکار رہی ہے اور مایوسی کے عالم میں بغاوت تک پہنچی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ تاریک راہوں میں بھٹکنے کے بجائے اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر اپنی محرومیاں دور یا کم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ منصوبہ چاروں صوبوں کی یکساں افادیت کا حامل ہے اور طویل مدتی مفادات کا حامل ہے لہٰذا ہمارے ملک کی مخلص سنجیدہ اور عوام دوست طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس منصوبے کے ثمرات سے چاروں صوبوں کے عوام کو فائدہ حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس منصوبے کی مخالفت برائے مخالفت سے دست بردار ہوں اور کھل کر عوام کو بتائیں کہ اس منصوبے کا روٹ کیسے اور کہاں تبدیل کیا گیا ہے یا جا رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو واضح طور پر یہ بتایا جائے کہ روٹ کی مبینہ تبدیلی سے عوام کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چونکہ بے چارے عوام اپنی سیاسی اوقات کی وجہ سے کسی بھی منصوبے میں نہ فریق بن سکتے ہیں نہ اعتراض اٹھاسکتے ہیں اور ہمیشہ خواص عوام کے نام پر ہر منصوبے کے فریق بھی بن جاتے ہیں اور اپنے طبقاتی مفادات کے لیے اعتراض بھی اٹھاتے ہیں اور یہ منصوبہ طویل مدتی مفادات کا ہے لہٰذا وہ سارے عوام دوست حلقے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ فکر سے ہو اس منصوبے کو عوام کے مفادات کے مطابق بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں خاص طور پر میڈیا اس مسئلے پر عوام کے مفادات کی ترجمانی کرے۔

اردوان کے ساتھ ترکی بہ ترکی ؟ وسعت اللہ خان




 وسعت اللہ خان

یہ تو آپ نے سن پڑھ ہی لیا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے شاندار تیرہ برس کے گڈ گورننس ریکارڈ کے باوجود ترک ووٹروں نے ان کا یہ خواب توڑ دیا کہ ترکی کو پارلیمانی نظام کے بجائے ایک طاقتور صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ساڑھے پانچ سو نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی میں تین سو تیس نشستوں کی دو تہائی اکثریت درکار تھی۔
لیکن ہوا یہ کہ دو روز قبل ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سادہ اکثریت ( دو سو چہتر ) سے بھی محروم ہو گئی۔لگ یوں رہا ہے کہ بیس برس بعد ترکی میں کمزور مخلوط حکومتوں کا زمانہ لوٹ رہا ہے کہ جس سے تنگ آکر عوام نے لگاتار تین پارلیمانی انتخابات (دو ہزار دو ، سات ، گیارہ ) میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو مضبوط حکومت سازی کے لیے منتخب کیا۔تو کیا عوام ناشکرے ہوتے ہیں یا پھر حکمرانی ہی میں یہ وصف ہے کہ وہ سیدھے چلتے چلتے طوالت کے باعث غیر محسوس انداز میں ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہے۔
رجب طییب اردوان منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی موروثی سیاسی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔وہ تو ایک معمولی ترک کوسٹ گارڈکے صاحبزادے ہیں۔گھریلو اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اردوان بھی نوعمری میں سڑک پر سوڈے کی بوتلیں اور خشخشی مرمرے بیچتے رہے۔انھوں نے نوجوانی میں پہلوانی کی ، تھیٹر ڈرامے لکھنے کا تجربہ کیا ، نیم پروفیشنل فٹ بالر رہے۔ایم بی اے بھی کیا۔
اسلام پسند نجم الدین اربکان کی سیاست سے انسیت رہی اور انیس سو چورانوے میں اربکان کی ویلفئیر پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے مئیر کی چار سالہ مدت کا انتخاب بھی جیت گئے اور پھر بطور مئیر کارکردگی ان کے شاندار سیاسی عروج کی بنیاد بنی۔مئیر اردوان نے تین برس میں ہی دو ارب ڈالر کی مقروض بلدیہ کو گرداب سے نکالنے کے لیے کرپشن کنٹرول کی اور استنبول میں چار ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔ان منصوبوں سے شہر میں پانی کی قلت ختم ہوئی ، پبلک ٹرانسپورٹ میں پٹرول کے بجائے گیس کے استعمال سے فضائی آلودگی نصف رہ گئی۔
پچاس کے لگ بھگ نئے پل بنے ، سڑکیں اور چوک چوڑے ہوئے۔ تجاوزات کے خلاف سخت قوانین نافذ ہوئے۔ یوں استنبول کے ٹریفک مسائل قابو میں آگئے۔اس سے پہلے کہ اردوان کی چارسالہ مدت ختم ہوتی۔ فوج کے دباؤ پر اربکان حکومت ختم ہوگئی اور ویلفئیر پارٹی کو آئینی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔رجب طیب اردوان نے ردِ عمل میں ایک متنازعہ نظم لکھی جس میں گنبد ، مینار جیسے استعارے استعمال ہوئے۔چنانچہ مئیر کے عہدے سے برطرف ہوئے ، مقدمہ چلا ، دس ماہ قید کی سزا ہوئی مگر عملاً چار ماہ جیل میں رہے۔
اردوان اور ان کے ساتھیوں نے ویلفئر پارٹی کی سیاسی غلطیوں اور کمزوریاں کا ناقدانہ جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فوج کے گہرے سیاسی اثر و نفوذ کے ہوتے کسی مہم جوئی کے بجائے مرحلہ وار تبدیلی ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ چنانچہ اردوان ، عبداللہ گل اور دیگر ساتھیوں نے سن دو ہزار ایک میں کالعدم ویلفئیر پارٹی کی جگہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور استنبول کی بلدیاتی کارکردگی کو قابلِ عمل ملک گیر سیاسی ماڈل کے طور پر پیش کیا۔
دو ہزار دو کے پارلیمانی انتخابات میں اقتصادی کساد بازاری اور کمزور مخلوط حکومتوں کے ستائے ووٹروں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔عبداللہ گل وزیرِ اعظم بنے اور جب ایک برس بعد رجب طیب اردوان کی عدالتی بریت ہوئی تو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے وہ رکنِ اسمبلی اور پھر وزیرِ اعظم بنے۔ عبداللہ گل صدرِ مملکت ہو گئے۔
اگلے دس برس میں ترکی کی قومی آمدنی میں چونسٹھ فیصد اور فی کس آمدنی میں تینتالیس فیصد اضافہ ہوا اور ترکی کا شمار تیز رفتار ترقی کرنے والے ٹاپ ٹین ترقی پذیر ممالک میں ہونے لگا۔ قومی کرنسی لیرا مستحکم ہوئی اور افراطِ زر کی شرح بتیس سے کم ہو کر نو فیصد پر آ گئی۔دو ہزار دو میں ترکی آئی ایم ایف کا ساڑھے تئیس ارب ڈالر کا مقروض تھا۔دو ہزار بارہ تک یہ قرضہ اتار دیا گیا۔
تعلیمی بجٹ دو ہزار دو میں سات ارب لیرا تھا جو دو ہزار گیارہ میں بڑھ کے چونتیس ارب لیرا تک پہنچ گیا۔ پہلی بار تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے آگے نکل گیا۔یونیورسٹیوں کی تعداد دس برس کے دوران اٹھانوے سے بڑھ کے ایک سو چھیاسی ہوگئی۔لازمی اور مفت تعلیم کا دورانیہ آٹھ برس سے بڑھا کر بارہ برس کر دیا گیا۔لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ انرول کرنے کو ترجیح دی گئی۔اٹھارہ برس سے کم عمر کی آبادی کے لیے صحت کی سرکاری سہولتیں مفت قرار دی گئیں۔( گویا آدھی آبادی تحفظِ صحت کی چھتری تلے آ گئی)۔
انفراا سٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری ہوئی۔انیس سو تئیس سے دو ہزار دو تک نواسی برس میں ترکی میں چھ ہزار کلومیٹر پختہ شاہراہیں بنیں لیکن دو ہزار دو کے بعد سے اگلے دس برس کے دوران تیرہ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہائی ویز تعمیر ہوئیں۔ہائی اسپیڈ ٹرین سروس شروع کی گئی۔آبنائے باسفورس کے آر پار دنیا کی سب سے گہری سمندری ریلوے سرنگ تعمیر ہوئی۔ ایئرپورٹوں کی تعداد چھبیس سے پچاس ہوگئی۔
عدالتی اصلاحات کی کوششیں بھی ہوئیں۔سزائے موت ختم کردی گئی۔ دو ہزار نو میں بغاوت کے الزام میں تین سو کے لگ بھگ اعلٰی فوجی افسروں کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے واضح پیغام دیا گیا کہ فوج سویلین قوانین سے بالا مقدس گائے نہیں۔کرد اقلیت سے ترک ریاست کی پچیس سالہ جنگ ختم ہوئی۔اس جنگ میں چالیس ہزار جانیں تلف ہوئی تھیں۔اردوان حکومت نے کرد زبان کو قومی درجہ دے کر لسانی حقوق بحال کردیے۔کرد علاقوں کی ترقی کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا۔
ترکی نے خارجہ امور میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے باوجود فلسطینیوں کی کھل کے حمائیت کی ، مصر میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والی فوجی حکومت کے لتے لیے۔سعودی ایرانی علاقائی مناقشے میں اپنا وزن سعودی کیمپ میں ڈالا مگر ترکی کو ایک مسلم جمہوری رول ماڈل کے طور پر مشرقِ وسطی میں بطور مثالیہ پیش کرنے کی بھی بھرپور کوشش جاری رہی۔
تو پھر ایسا کیا ہوگیا کہ دو روز قبل پارلیمانی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تیرہ برس میں پہلی بار حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی۔
بات یہ ہے کہ پچھلے تین برس میںترکی میں آزادیِ اظہار پر سختیاں بڑھ گئی ہیں۔دو ہزار دو میں ترکی دنیا کے ایک سو انہتر ممالک کے پریس فریڈم انڈیکس میں سویں نمبر پر تھا، آج ایک سو چونوے نمبر پر ہے۔حکومت نے ویب سائٹس بند کرنے اور کھولنے کا اختیار بھی حاصل کرلیا ہے۔ سرکار مخالف مظاہروں کو سختی سے کچلنے کا رجہان بھی بڑھا ہے۔سرکردہ مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے بھی بڑھتی ہوئی بے اعتدالیوں کے سبب اردوان حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بیوروکریسی میں گولن کا اچھا خاصا اثرونفوذ ہے۔چنانچہ بہت سے اسکینڈلز چار دیواری سے باہر آئے اور اردوان حکومت کی شہرت کو بٹہ لگا۔
انفرااسٹرکچر کی ترقی کے نام پربے تحاشا تعمیراتی کمرشلائزیشن کے سبب ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان پر شہری نوجوان طبقہ بالخصوص نالاں ہے۔کروڑوں ڈالر کے کرپشن اسکینڈلز نے گڈ گورننس کی چیمپئن اردوان حکومت کے کئی وزرا ، ان کی اولادوں اور اعلی افسران کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔اس ضمن میں متعدد گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔اقتصادی ترقی کے باوجود بے روزگاری کی شرح دس فیصد سے بڑھ کے بارہ فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔
اور اس پر یہ خبریں بھی سونے پر سہاگہ کہ ماحولیاتی تحفظ یافتہ اتاترک نیشنل پارک میں ساڑھے تین سو ملین ڈالر کی لاگت سے صدر اردوان کے لیے ایک ہزار کمروں کا پچاس ایکڑ پہ پھیلا محل عدالتی امتناع کے باوجود مکمل کیا گیا اور اس محل میں سربراہانِ مملکت کا استقبال عثمانی دور کی وردیوں میں ملبوس سپاہی کرتے ہیں۔گویا صدر اردوان خود کو منتخب نمایندے کے بجائے عثمانی سلطان تصور کرتے ہیں۔تبھی تو وہ بااختیار وزارتِ عظمی چھوڑنے کے بعد جب گذشتہ برس صدر منتخب ہوئے تو اپنے لیے ایک کمزور وزیرِ اعظم پسند فرمایا۔
شام کی خانہ جنگی میں اردوان حکومت کی جانب سے شدت پسند دولتِ اسلامیہ کے بارے میں نرم روی برتنے کا بھی اندورون و بیرون پختہ تاثر ہے اور اس بابت شامی سرحد پر آباد ترک کردوں کو سب سے زیادہ مسائل اور شکایات ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اردوان میں یہ خو بھی آتی چلی گئی کہ وہ اپنی مخالفت یا ناکامی کے اندرونی اسباب تلاش کرنے کے بجائے اس کا ذمے دار امریکا اور اسرائیل سمیت بیرونی طاقتوں اور ان کے ترک ایجنٹوں ( حزبِ اختلاف ) کو ٹھہرانے لگے۔تو کیا ترک ووٹر بھی ملک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی صدر اردوان کی درخواست کو دھتا بتا کے بیرونی ایجنٹ ہو گئے ؟
کوئی بھی حکمراں جب تیرہ برس سے ’’جی سر ، واہ سر ، زبردست سر’’ مسلسل سنے گا تو وہ ’’ نو سر’’ ہضم کرنے کے قابل بھلا کہاں رہتا ہے ؟

پاکستان میں ایپلی کیشن فیس کے نام پر بیروزگار نوجوانوں کا استحصال


پچھلے دس براہ سالوں  سے پاکستان میں تقریباً تمام نوکریوں  کے لئے درخواست کو ٥٠٠ سے لے کر٥٠٠٠ روپے تک فیس وصول کیا جاتا ہے . خیبر پختوانخواء کی حد تک تو بہت سے یونیورسٹیز اور گورنمنٹ ادارے پہلے ہے سے بھرتی کئے ہوئےآسامیوں پر بھرتی کا مطلوبہ  عمل پورا کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں ، حالانکہ اس پوزیشن پر پہلےہی منظور نظر افراد کا انتخاب ہو چکا ہوتا ہے . اِس کے علاوہ ایک بیروزگار نوجوان کے جیب پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے . جب وہ ہر درخواست کے ساتھ پروسسنگ فیس کے نام پر ایک غنڈہ فیس دیتے ہیں . بہت سے اداروں نے ایپلی کیشن فیس کو با قاعدہ منافعےکا  ذریعہ  بنایا ہُوا ہے
Image result for nts logo

اِس جدید دور  میں جب کمپیوٹر کے بہت تیز اور خود کار طریقے سےبھرتی کا عمل مکمل کیا جا سکھاتا ہے ، تو پِھر اِس قسم واہیات ہتھکنڈوں کی کیا تک بنتی ہے . 

پاکستان میں ہر سال این ٹی ایس  کے  چھتری تلے  لاکھوں روپے کمائے جاتے ہیں . این ٹی ایس کو اگر یونیورسٹیزداخلے  کے لئے استعمال کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس طرح  صحیح طالبعلموں  کا انتخاب کیا جاسکےگا. چہ جایکہ  پڑھے لکھے نوجوانوں کی تضحیک کرے ،نوکریوں کے لیے اسکریوٹنی کے عمل کو  سی ایس ایس یا  پی سی ایس   کے طرز پر با قاعدہ امتحان  مرتب کرکے  مکمل کرنا چاہیے . اسطرح  ایک تو مطلوبہ معیاراور اہلیت کا امیدوار مل جاےگا بلکہ شفافیت بھی یقینی بنا دیا جاےگا.

  .کیا جمہوریت کے دعوے دار اور نوجوانوں کے علمبردار کسی مرکزی یا صوبائی  حکومت کو اِس کھلم  کھلا استحصال اور ظلم کا احساس ہے ، جس میں این ٹی ایس  جیسے نجی ادارے منافع بخش ادارے بن گئے ہیں ، کیا یہ غریب اور .  بیروزگار نوجوانوں  کے خون  چوسنے کے مترادف نہیں. کیا کبھی کوئی غریب کے بچے کا بھی سوچے گا یا ہم سب کچھ دھاندلیوں کے شور اور میٹروز کے چکاچوند میں بہا لے جاینگے

Haroon Rasheed Column 20/5/2015




Rauf Kalsra's new Column


Bus ik Ishara chahaye by Rauf Klasra

شمالی وزیرستان میں ایک اور ڈرون حملہ، چھ ہلاک



پشاور: پاکستان کے قبائلی علاقے میں پیر کی رات ایک اور امریکی ڈرون حملے میں  چھ مبینہ دہشت گرد ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے ۔
ذرائع کے مطابق، شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال کے علاقے زوئے نارے میں ایک ٹھکانے اور گاڑی پر دو میزائل داغے گئے۔
ڈان نیوز کے مطابق، حملے میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ ہفتہ کی رات شوال میں ہی وروکے منڈی میں دو مکانوں پر ڈرون حملے میں پانچ مبینہ ازبک عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
دوسری جانب، پاکستان نے آج ایک مرتبہ پھر امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
پیر کو دفترخارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اﷲ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم ایسے حملوں کی مذمت کرتے ہیں جو پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی صریح خلاف ورزی ہیں‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت جب آپریشن ضرب عضب فیصلہ کن مرحلے میں ہے اور حکومت کی توجہ آئی ڈی پیز کی بحالی پر مرکوز ہے، اس طرح کے حملوں سے مقامی آبادی میں بد اعتمادی پھیلتی ہے۔


ڈان نیوز 

Gawadar, Chah Bahar, Balochistan- Iraq, Karachi, Beirut by Orya Maqbool Jan




شوگر ملز کے فضلے میں موت بہتی ہے

شوگر ملز کے فضلے میں موت بہتی ہے

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
کئی برس پہلے جب جیمس برنس "کچھ بھج" کے راستے سے ہوتا ہوا زیریں سندھ سے گزرا تھا، تب یہاں کے شب و روز فطرت دوست تھے۔ جھیلیں تھیں، گھنےجنگل تھے، اور یہاں کی چراگاہیں مشہور تھیں۔ کھیتوں میں دھان اگتی اور سرسوں بھی لہلہاتی۔ پھر برٹش راج میں جب ریل کی پٹریاں دور دراز علاقوں تک دوڑتی چلی گئیں تو ترقی کے سفر کو بھی جیسے پہیے لگ گئے۔
کہتے ہیں کہ حیدرآباد سے دھواں اڑاتی اور سیٹی بجاتی ریل گاڑی جب پہلی بار بدین کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، تو حیرت سے بھری ہزاروں آنکھوں نے یہ منظر دیکھا۔ آنکھوں میں تب سے جو حیرت نے ڈیرے ڈالے ہیں وہ اب تک آباد ہیں۔ بس ایک ذرہ سی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ ان حیرت سے کھلی پلکوں میں بے بسی بھی کہیں سے آکر سما گئی ہے۔ امبر پر گاڑھے دھویں کے بادلوں اور زمین پر ترقی کے کارخانوں سے کیمیکل کی صورت میں جو موت بہہ کر نکلتی ہے، اس کو یہ لوگ بے بس آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
1960 میں بدین کے ایک چھوٹے سے شہر تلہار میں پہلی بار شوگر مل کی چمنی سے دھواں اٹھا۔ اس کے دس برس بعد کھوسکی میں ایک اور چمنی نے دھواں اگلا۔ اب تو بدین، سجاول، اور ٹھٹہ ایک "شوگر اسٹیٹ" کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان میں 80 سے زائد شوگر ملیں ہیں، ان میں سے دس کے قریب ملوں میں "ڈسٹلری یونٹ" نصب ہیں جو "مولیسز" سے صنعتی الکوحل کشید کرتے ہیں۔ ان دس میں سے تین شوگر ملز ضلع بدین اور سجاول میں ہیں۔ سندھ میں ڈسٹلری یونٹ کا پہلا تجربہ 1972 میں ٹھٹہ شوگر مل میں کیا گیا تھا۔
یہ تینوں شوگر ملیں روزانہ لاکھوں لیٹر صاف پانی استعمال کرتی ہیں، لیکن جب اس پانی کا ڈسٹلری یونٹ سے اخراج ہوتا ہے تو وہ زہریلے کیمیکلز سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ یونٹس ابتدا سے ہی قانون شکنی کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے قانون 'پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997'کے تحت ہر ایک ڈسٹلری یونٹ میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا ہوتا ہے، جو یہ نہیں لگاتے۔ اگر یہ پلانٹ لگادیا جائے تو اخراج کے وقت پانی میں زہریلے کیمیکلز کی مقدار کم رہ جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرائمری لیول پر پانی کی recycling کی جائے، اور سیکنڈری لیول پر اگرUASB ٹیکنولاجی کا استعمال کیا جائے تو اس اخراجی پانی سے 80 سے 90 فیصد تک آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے* مگر ایسا نہیں ہوتا۔
ہوتا وہ ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔ پھر یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان یونٹس کا کیمیکل سے بھرا زہریلا اخراج کس قانون کے تحت ان نکاسیء آب کے نالوں میں کیا جاتا ہے؟ کوئی قانونی اجازت نہیں ہے، پر یہ ہوتا ہے اور کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔ اور جس وقت یہ اخراج ان نکاسیء آب کے نالوں میں ہوتا ہے، اس لمحے ایک ماحولیاتی سسٹم کی بربادی کی ابتدا ہو جاتی ہے جس کے سارے جانداروں پر، چاہے وہ مچھلی ہو، گھاس پھوس ہو، درخت ہوں، چرند پرند ہوں، انسان ہوں، ان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ کہانی ان دو سو کلومیٹرز میں پھیلے ہوئے نکاسیء آب کے نالوں کی ہے جو اب دھیرے دھیرے مر رہے ہیں۔ پہلے معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ ان میں دھان کے کھیتوں کا اضافی پانی بہتا، بارشوں میں یہ نالے پانی سے بھر بھر کر بہتے، جس کی وجہ سے ان کی اپنیecology تھی، ان کے دونوں اطراف میں بسے ہوئے دو سو سے زائد گاؤں ہیں جن میں بسنے والے لوگ اپنے مویشیوں کو یہاں سے پانی پلاتے، کپڑے اور برتن دھونے کے لیے یہ پانی استعمال ہوتا، زمینوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے آباد کرتے، جن میں ٹماٹر، پیاز، لہسن اور دوسری سبزیاں اگائی جاتی تھیں۔ خوراک کے لیے چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کا شکار ہوتا تھا۔ کچھ نالوں میں تو اتنی مچھلی ہوتی کہ فشریز ڈپارٹمنٹ سندھ اس کے ٹھیکے نیلام کرتا۔
ان نالوں کے کناروں پر سرکنڈے اور "پن" (elephant grass) اور گھاس پھوس کی ہریالی اگتی جو مویشیوں کے لیے قدرتی چارہ تھا۔ پانی میں دیگر آبی حیات پنپتیں جو مچھلیوں اور جانداروں کے لیے خوراک کا قدرتی بندوبست ہوتا۔ ان سرکنڈوں اور کناروں پر اگے کیکر کے درختوں میں پرندے اپنے گھونسلے بناتے، چہچہاتے، گاتے اور فطرت کے سر و تال پر جھومتے۔
ان نکاسی آب کے نالوں کے اچھے دنوں کی کہانی کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ اگر آپ گونگڑو (قدیم دریائے سندھ کی برانچ، جو اب نکاسیء آب کے نالے کے طور پر استعمال ہوتی ہے) کا مغربی کنارہ لے کر جائیں تو آپ کو سینکڑوں ایسے خاندان ملیں گے جن کا ذریعہ معاش "پکھے" (پن سے گھروں کی چھت کے لیے بنایا جاتا ہے، جو دھوپ اور بارش سے بچاتا ہے اور مارکیٹ میں اس کی اچھی قیمت مل جاتی ہے) بنانا ہے۔
مرد و عورت مل کر پکھے کی بنائی کرتے ہیں۔ اب غریب لوگوں کو "پکھوں" کے وسیلے چھاؤں دینے والے بہت سارے گاؤں اجڑ چکے ہیں۔ بڑی کوشش کے بعد مجھے ایک گاؤں ملا۔ گاؤں کیا تھا، بس ایک خاندان کے کچھ لوگ تھے۔ دن ڈھل چکا تھا پر گرمی تھی۔ میں نے جعفر تھہیمور سے پکھوں کے متعلق پوچھا۔ جوانی اب جعفر کے اوپر سے ایسے گذر گئی ہے جیسے ساون کی بارش، جو ابھی ہے، ابھی نہیں۔
اس نے رسی سے پکھے کو بنتے ہوئے جواب دیا "اب وہ دن کہاں جب گونگڑو میں میلوں تک پن ہوتی تھی، نظر ختم ہو جاتی تھی پر پن کی ہریالی نہیں۔ سارے گھر والے مل کر پن کو کاٹتے، چھیلتے، صاف کرتے، اور پھر پکھے بناتے۔ اچھی خاصی روزی روٹی مل جاتی تھی۔ ہمارا یہ خاندانی کام ہے۔ ہم مرد عورتیں مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ پر جب سے میٹھا پانی کم ہوا ہے اور شوگر ملوں کا زہریلا پانی آیا ہے تب سے پن بس اب نام کی ہوتی ہے۔ پہلے مچھلی اتنی ہوتی تھی کہ جب پکھوں کا کام نہیں ہوتا تھا تو مچھلی پکڑ کر بیچتے تھے۔ اب تو مچھلی بھی نام کی ہی رہ گئی ہے۔ اس زہر کی وجہ سے بدبو ہی بدبو ہے۔ کبھی کبھار مجبوری میں یہ پانی استعمال کر لیتے ہیں تو ہاتھوں پر دانے نکل آتے ہیں۔" اب ان کی زندگی میں ہر چیز نام کی ہی رہ گئی ہے۔
یہاں ان کناروں پر جب دھوپ تپتی ہے تو زندگی انتہائی مشکل پہیلی بن جاتی ہے۔ سوچتے سوچتے بھول بھلیاں اتنی ہوجاتی ہیں، کہ ان سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ تب تھک ہار کر یہاں کے لوگ گھاس پھوس کے گھروندوں میں آنکھیں موند لیتے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کو گزار رہے ہیں یا زندگی ان کو، اس کا اندازہ میں کر نہیں پایا۔ یہ نکاسی آب کے نالے سفر کرتے کرتے دو بڑے نالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بدین کی طرف "امیر شاہ ڈرین" جو چل کر "نریڑی" کے مرکزی فشنگ گراؤنڈ میں اختتام پذیر ہوتا ہے، اور دوسرا سجاول کی طرف "گونگڑو ڈرین"، جو بہتا ہوا دوسرے بڑے فشنگ گراؤنڈ "زیرو گونگڑو" میں اپنا سفر ختم کرتا ہے۔
یہ دونوں ڈرینز جہاں اپنا سفر ختم کرتی ہیں، وہاں سے ایک اور بربادی کی داستان کی ابتدا ہوتی ہے۔ وقت بھی اپنی بساط پر عجیب کھیل کھیلتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ہی دونوں نالے ان فشنگ گراؤنڈز کے لیے حیات کا پیغام تھے۔ ہزاروں خاندان ماہی گیری کرتے اور فطرت سے جڑی اس زندگی میں بڑے خوش تھے۔ میں نے جب یہاں کے مقامی ماہی گیر مومن ملاح سے یہاں گذرے ہوئے خوبصورت دنوں کے متعلق پوچھا تو اس نے جو جواب دیا، اس جواب کے آسمان پر امید کی کوئی فاختہ مجھے اڑتی ہوئی نظر نہیں آئی، ہاں البتہ مایوسی اور نا امیدی کے ہزاروں کرگس زمین پر آنکھیں ٹکائے بیٹھے تھے۔
"گونگڑو اور نریڑی سے مچھلی اور جھینگوں کی پچاس سے زائد گاڑیاں روزانہ کراچی جاتی تھیں، تب ٹھیکیداری نظام تھا۔ سالانہ ستر کروڑ تک کا ٹھیکہ ہوتا تھا، آپ خود اندازہ کرو کہ کتنی آمدنی ہوتی ہوگی۔ نریڑی سے یہاں تک ہزاروں کشتیاں ہوتیں جو ماہی گیری کرتیں، رات کو تو ایسا لگتا جیسے کراچی کا شہر ہو۔ میلہ لگا ہوتا تھا میلہ، اب آپ خود دیکھ لیں، سیزن میں پانچ گاڑیاں بھی مشکل سے نکلتی ہیں۔ بس روکھی روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے۔"
میں نے جب مومن سے پوچھا کہ اگر ماہی گیری سے گزر نہیں تو کھیتی باڑی کیوں نہیں کرتے؟ میرے سوال کا جواب مومن نے بڑا خوب دیا "یہاں پینے کا پانی تک نہیں ہے، زمینیں کہاں سے آباد کریں گے؟ جن لوگوں کی جدی پشتی زمینیں تھیں وہ بھی پانی کی کمی اور سمندر آگے بڑھنے کی وجہ سے برباد ہوگئی ہیں، پہلے ان زمینوں میں جہاں دھان اگتی تھی اب وہاں نمک اگتا ہے۔ تو ہم کہاں سے کریں گے کھیتی باڑی؟" مومن کے ان الفاظ کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا اور نہ کسی دوسرے سوال کی ہمت۔
میں نے گاڑھا سرخ پانی دیکھا جو دھیرے سے ان نالوں میں سفر کرتا ہے، کوئی جاندار اس پانی کے نزدیک آنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ہریالی اس پانی سے دور بھاگتی اور کوئی پیاسا کوا بھی اس پانی سے پیاس بجھانے کی نہیں سوچتا۔ کوئی بچہ اب تیز گرمی سے بچنے کے لیے اس میں نہیں نہاتا۔ کوئی مچھلی اب اس پانی سے اپنا سر نکال کر اپنی ننھی منی آنکھوں سے نیلے امبر کو نہیں دیکھتی۔ ایک زہر آلود اور تیز بدبو سے بھری خاموشی ہے جو ان نالوں کے کناروں بستی ہے۔
انسانی ترقی کی قیمت اس ماحول کو چکانی پڑی ہے۔ یہ قیمت بہت ہی بھاری ہے، اور نجانے کب تک چکائی جاتی رہے گی۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری

*ایک شوگرمل کا ڈسٹلری یونٹ پورا سال چلتا ہے اور اس سے Ethanol Alcohol کشید کیا جاتا ہے۔ الکوحل کشید کرنے کے بعد جب یہ گاڑھا اور ابلتا ہوا مادہ ان ڈرینز میں داخل ہوتا ہے تو اس میں شامل بائیوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (BOD) کی وجہ سے پانی کے اوپر ایک تہہ سی جم جاتی ہے، جس سے آکسیجن کی مقدار پانی میں خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ خارجی مادہ بڑی مقدار میں حل شدہ ٹھوس کیمیکلز (High TDS) کا مرکب ہوتا ہے، تو یہ جہاں جہاں پہنچتا ہے وہاں آبی حیات اور سبزے کو برباد کر دیتا ہے۔

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

یمن سے 503 پاکستانی کراچی پہنچ گئے:ڈان نیوز ٹی وی

غیر ملکی افراد تیزی سے یمن سے نکل رہے ہیں ۔۔۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کا خصوصی بوئنگ -747 جمبو جیٹ یمن میں پھنسے 503 پاکستانی شہریوں کو لے کر کراچی پہنچ گیا۔
یمن میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں خلیجی ملکوں کا اتحاد اپنی فضائی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسلام آباد نے یمن کی موجودہ صورتحال میں وہاں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا اور سعودی ایوی ایشن حکام کی جانب سے کلئیرنس ملنے کے بعد پی آئی اے کا ایک طیارہ الحدیدہ بھیجا گیا۔
یاد رہے کہ لڑائی کے شکار یمن کے داراحکومت صنعاء سے اتوار کو 600 پاکستانیوں پر مشتمل قافلہ الحدیدہ پہنچا تھا۔

کیوی کپتان کی انکساری

نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن مک کلم۔ — اے پی
نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن مک کلم۔ — اے پی
میلبورن:نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کلم نے کہا ہے کہ قومی ٹیم کے کئی کھلاڑی کرکٹ سے ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔
بلیک کیپس کے کپتان نے اتوار کو انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے اعلان کو کچھ دنوں کیلئے روکا گیا ہے کیونکہ آسٹریلیا نے ورلڈ کپ جیتا ہے اور ایسے میں وہ میڈیا کی بھرپور توجہ کے مستحق ہیں۔
برینڈن کے مطابق، نیوزی لینڈ کے کھلاڑی اس وقت میڈیا کی سرخیوں میں نہیں آنا چاہتے کیونکہ فی الحال یہ آسٹریلیا کا حق ہے۔
میلبورن کرکٹ میدان میں ریکارڈ 93013 تماشائیوں کے سامنے آج آسٹریلیا نے 34ویں اوور میں مقررہ 184 رنز بنا کر پانچویں مرتبہ ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔
قیاس آرائیاں ہیں کہ ریٹائر ہونے والے کیوی پلیئرز میں سینئر سپنر ڈینیل وٹوری سرفہرست ہیں۔
وٹوری کے علاوہ 33 سالہ کپتان مک کلم کا نام بھی سامنے آ رہا ہے لیکن انہوں نے فی الحال نیوزی لینڈ کی شکست کے باعث کھلاڑیوں کے نام بتانے سے گریز کیا۔
مک کلم نے فائنل میچ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ 'ہم دھول کے بیٹھنے کا انتظار کریں گے۔ ہم یقیناً اگلے دو تین دنوں تک ہیڈ لائنز کا حصہ بننا نہیں چاہتے کیونکہ یہ آسٹریلیا کا حق ہے '۔
میچ کے بعد پریس کانفرنس ختم ہونے پر صحافیوں کے لیے تالیاں بھی بجائیں۔ پریس کانفرنس میں کیوی کپتان نے تسلیم کیا کہ آسٹریلیا نے انہیں باآسانی زیر کیا۔
'تمام تعاریفیں آسٹریلیا کیلئے ہونے چاہیئں کیونکہ انہوں نے اتنے بڑے موقع پر اور اتنے بڑے سٹیج پرصحیح اور اہم لمحات میں ڈیلیور کیا'۔
'ہم ان سے کچھ سبق سیکھیں گے لیکن بعض اوقات آپ کو تسلیم کرنا چاہیے کہ آپ ریس میں دوسرے نمبر پر ہی رہے'۔
انہوں نے گرانٹ ایلوٹ، مارٹن گپٹل اور وٹوری کو آؤٹ کرنے کے بعد آسڑیلوی باؤلرز کے جملے بازی پر تنقید کرنے سے بھی گریز کیا۔
'میرے خیال میں ہماری توجہ چھوٹے موٹے معاملات کے بجائے اس پر ہونی چاہیے کہ آج آسٹریلیا نے کیسا پرفارم کیا اور وہ آج کس طرح اس جیت کے مستحق تھے'۔

Game Plan of USA against the Muslims

Man Caught Smuggling 94 iPhones


Custom officials have caught a person trying to smuggle 94 iPhones wrapped on his body. Officials observed his weird posture and upon looking for detail investigation they found him wearing a jacket like shirt made of 94 iPhones. Smuggler was trying to leave Hong Kong. By looks, there were 5s phones with few 6 and 6s.
iphone smuggling

Confessions of Saulat Mirza: Terrorist of MQM


Saulat Mirza Of MQM 1 by voiceofpakistan21

ایم کیو ایم کا صولت مرزا: دہشتگردی کا ثا بت شدہ مجرم بچانے کوشش


ایم کیو ایم کا صولت مرزا پاکستان کے ان چند دہشتگردوں میں سے ایک ھے جس پر باقاعدہ دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلا، ثبوت پیش ہوئے اور مئی 1999 میں موت کی سزا سنادی گئی۔ صولت مرزا پر جو بہت سے قتل کے کیس تھے ان میں سے ایک کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایم ڈی کا قتل بھی شامل تھا۔
مشرف آیا، ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئی اور صولت مرزا کی پھانسی پر عملدرامد روک دیا گیا۔ پھر زرداری آیا جس نے آرڈیننس کے زریعے پھانسی کی سزا ہی ختم کردی۔
پچھلے مہینے سانحہ پشاور ہوا اور پھانسیوں کا موسم شروع ہوگیا۔ پیلے مرحلے میں جنہیں پھانسی ملی وہ مشرف پر قاتلانہ حملے کے ملزم تھے۔
آج وفاقی حکومت نے آرڈر جاری کرکے صولت مرزا کی پھانسی پر ایک دفعہ پھر عملدرامد روک دیا۔
اگر قتل ایک جرم ھے تو پھر پھانسی صرف مخصوص لوگوں کو ہی کیوں؟ معاشرے کی ہر برائی بشمول دہشتگردی کے پیچھے کہیں نہ کہیں معاشرتی ناانصافی کا عمل دخل ضرور ہوتا ھے۔ یہ سمجھنے کیلئے آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں کہ آج اگر صرف تحریک طالبان کو پھانسیاں دی گئیں اور صولت مرزا جیسوں کو معاف کردیا گیا تو اس سے دہشتگردی مزید پھلے پھولے گی۔
پھر چند سال بعد آپ ایک دفعہ پھر سر پکڑ کر بیٹھے ہونگے اور سوچ رھے ہونگے کہ یہ دہشتگردی کیسے رکے گی۔ اور اگر آپ کی پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو ایک دفعہ باباکوڈا کی یہ پوسٹ پڑھ لیں۔
ناانصافی کو ناانصافی سے ختم کرنے کی کوشش بھی دہشتگردی کی ہی ایک شکل ھے

اسرائیل نے فلسطین کو محصولات کی منتقلی روک دی: BBC Report




’کالعدم تنظمیوں کی سرگرمیاں جاری رہیں تو ان کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں‘


چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگاپاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سرگرم 60 ممنوعہ تنظیمیوں کے خلاف کارروائی کا ایک طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے اور اس کے باوجود اگر یہ اپنا کام جاری رکھنے پر بضد رہی تو پھر ان کے کیس بھی فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں۔

Khalid Masood Khan, About Motorways in Pakistan

Mujeeb Shami Latest Urdu Column

Haroon Rasheed Latest Urdu Column